لاپتا افراد سے اِنسانی ہمدردی کیوں نہیں؟

153

سانحہ 9 مئی کے 19 مجرموں کی سزا معاف کردی گئی ہے۔ 2 جنوری کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق مذکورہ اعلان پاک فوج کے کورٹس آف اپیل نے کیا ہے۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ 9 مئی کی سزائوں پر عملدرآمد کے دوران 64 مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی درخواستیں دائر کیں۔ 48 درخواستیں قانونی کارروائی کے لیے کورٹس آف اپیل میں نظرثانی کے لیے بھیجی گئیں جن میں سے 19 مجرموں کی درخواستوں کو خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کرلیا گیا دیگر تمام مجرموں کے پاس بھی اپیل کرنے سمیت دیگر آئینی و قانونی حقوق برقرار ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اپریل 2024ء میں قانون کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 20 مجرموں کی رہائی کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے الفاظ کے مطابق یہ نظام ہمدردی اور رحم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔

ہم آئی ایس پی آر کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اس نے سانحہ 9 مئی کے بعض مجرموں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیا ہے۔ اُمید ہے کہ بقیہ مجرموں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف مل جائے گا جبکہ قارئین کو یہ یاد ہوگا کہ ہم نے بہت پہلے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھ دیا تھا کہ ’’معافی بھی ایک آپشن ہے‘‘۔ اُس وقت ہمارا کہنا یہ تھا کہ سیاسی کارکنوں کو سزا دینے سے معاف کردینا زیادہ بہتر ہے، اس سے فوج کے وقار، احترام اور محبت میں اضافہ ہوگا، تاہم اب بھی کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔ علاوہ ازیں آئی ایس پی آر کے یہ الفاظ بھی بہت اہم ہیں جو وہ اپنے داخلی نظام کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ ’’یہ نظام ہمدردی اور رحم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے‘‘۔ بہت اچھی بات ہے جب پاک فوج ہماری فوج ہے تو اُسے ہماری اور ہمیں اُس کی غلطیاں معاف کردینی چاہئیں۔ ویسے بھی انصاف رحم کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ یہ بنیادی طور پر اسلامی نظام عدل کا پہلا اصول ہے جبکہ جو نظام بے رحم ہوگا اس میں انصاف کم اور انتقام زیادہ ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ قوم کو آئی ایس پی آر کے بیانات سے نہ صرف مکمل اتفاق ہے بلکہ بہت زیادہ توقعات بھی ہیں کہ 9 مئی کے مجرموں کے ساتھ رحم کا سلوک کیا جائے گا اور ان کی سزا پر معافی کو ترجیح دی جائے گی۔ تاہم اس ساری صورت حال پر ایک اہم سوال بھی ہے جو ہم عسکری قیادت اور آئی ایس پی آر کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ بلوچستان سمیت ملک بھر سے کئی سال سے لاپتا ہیں اور جن کے ورثا سرکاری ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں ان لاپتا افراد کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سلوک کیوں نہیں کیا جارہا؟ جن لاپتا افراد کے ورثا عدالتوں کے چکر لگا لگا کر نڈھال ہوگئے، جن کی خواتین اور بچے کوئٹہ پریس کلب کے قریب سردی، گرمی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، آخر ان لاپتا افراد کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کب رہائی ملے گی؟ اگر ان کی رہائی ممکن نہیں اور وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ان کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ ان کا مقدمہ سول عدالتوں کے سامنے پیش کردیا جائے۔ اگر کوئی لاپتا شخص کسی حراستی مرکز میں دم توڑ چکا ہے یا یہ کہ وہ ازخود فرار ہو کر دہشت گردوں کے کیمپ میں چلا گیا ہے یا یہ کہ اپنی مرضی سے جلاوطن ہوگیا ہے تاہم جو بھی صورت حال ہے اُس کی تمام تفصیل سے اُن کے ورثا، میڈیا اور عدالت کو آگاہ کیوں نہیں کردیا جاتا؟

بہرحال یہ بات ہم سب کو معلوم رہنی چاہیے کہ جب تک کوئی ایک بھی پاکستانی شہری کسی حراستی مرکز میں ایڑیاں رگڑتا رہے گا تب تک انسانی ہمدردی اور انصاف کے تمام دعوے کھوکھلے اور ناقابل یقین ہوں گے عوام الناس کے اعتماد کو بحال کرنے اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کو پاسداری کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان کے کسی بھی علاقے سے اگر کوئی شخص لاپتا اور ایجنسیوں کے زیر حراست ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے کیونکہ بالآخر ہم سب کو ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے رحم، درگزر اور معافی کا معاملہ فرمائے اگر ہم میں سے کسی ایک سے بھی روز قیامت کوئی سوال پوچھ لیا گیا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اسے اس جھوٹی دنیا کے حکمرانوں اللہ کی مخلوق پر رحم کرو تا کہ کل تم پر بھی رحم کیا جائے۔ اللہ پاک ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔