شہباز شریف کے قدم پڑتے ہی اسٹاک مارکیٹ کا زوال

261
go to America on September 23

اسٹاک مارکیٹ کا ایک اصول ہے کہ دنیا بھر میں کاروبار کے آغاز پر بیل بجائی جاتی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ کاروبار کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ گھنٹی بجانے کے لیے کسی بہترین شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے، جسے مارکیٹ کے لیے نیک شگون سمجھا جاتا ہے، اور مارکیٹ کے اختتام پر بھی بیل بجائی جاتی ہے۔

افسوس ہے کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ کی یہ علامتی گھنٹی بھی سیاستدانوں کے کھیل میں بدل چکی ہے، جسے اسٹاک مارکیٹ کے عہدیداران حکومتوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال یہ ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ کے ارکان کو گھنٹی بجانے کی پیشکش کی گئی تو کاروبار کا آدھا دن گزر چکا تھا۔

کاروباری افراد نے اس چمچہ گیری کے کھیل کو خوش آئند نہیں سمجھا، اور شومئی قسمت کہ گزشتہ کئی روز سے اوپر جانے والی مارکیٹ اچانک 800 پوائنٹس نیچے آ گئی۔ سرمایہ کار آج تک پریشان ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی بلندی کی وجہ کیا ہے۔ جب انہوں نے خوشامدی ٹولوں کو دیکھا تو انہیں یہ گمان گزرا کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے بڑے کھلاڑی کچھ بھی کرسکتے ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کار اس سوچ میں پڑ گئے کہ بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں کو کس طرح خوش کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، کاروباری حضرات بغیر اپنے مفاد کے کبھی کچھ نہیں کرتے۔

اگر ہم اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس کو مدنظر رکھیں تو آج اگر ہم مختلف اسٹاک کی قیمتوں کو دیکھیں تو دس سال پہلے کی قیمتوں میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا۔ جس حساب سے مارکیٹ کا انڈیکس اوپر گیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب اس انڈیکس کو بہت تیزی کے ساتھ اوپر نیچے کیا جائے گا۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں ہر چیز آفیشل طور پر ایسے کام کرتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، کیونکہ اس کا کوئی عملی ثبوت نہیں ہوتا، جسے مارکیٹ سینٹی منٹس کا نام دیا جاتا ہے۔

ہر غریب کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگا کر آپ کروڑوں، اربوں روپے کما سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ 90 فیصد لوگ اس مارکیٹ میں اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں اور صرف 10 فیصد لوگ ہی مارکیٹ سے منافع حاصل کر پاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی 10 لوگوں کو دکھا کر مزید لوگوں کو جھانسہ دیا جاتا ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ حکومت جس انڈیکس کے چرچے کر رہی ہے، وہاں 25 کروڑ آبادی کے ملک میں اسٹاک مارکیٹ کا کام کرنے والے لوگوں کی تعداد صرف 3 لاکھ ہے۔ آج تک اس کی تعداد بڑھی نہیں، لیکن انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے کم لوگ ہوتے ہیں، اتنی آسانی سے مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان اسٹاک مارکیٹ ہو یا بڑے بڑے کاروباری لوگ، پاکستان کی معیشت کو ان کے مفاد میں چلایا جا رہا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں اسے کیپیٹلسٹ کہتے ہیں، جہاں غریب غریب تر جبکہ امیر امیر ترین ہوتا جائے گا۔ کیپیٹلسٹ میں حکومتی ادارے کو ختم کیا جاتا ہے تاکہ پرائیویٹ ادارے قیمتوں میں اپنی من مانی کرتے رہیں۔ جس سے ان کو تو بے تحاشہ فائدہ ہوتا ہے، لیکن مہنگائی بہت بڑھ جاتی ہے، جسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

اس کی حالیہ مثال فارما انڈسٹری ہے، جہاں کچھ عرصے کے لیے چیک اینڈ بیلنس ختم ہونے پر ادویات کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ غلطی صرف موجودہ حکومت ہی نہیں کر رہی، بلکہ اسی قسم کی غلطیاں پی ٹی آئی کے دور میں بھی دیکھنے میں آئیں جب اسٹیٹ بینک کو آزاد چھوڑا گیا، تو ملک میں ڈالر نایاب ہوگیا اور روپیہ زمین بوس ہوگیا۔

ایس آئی ایف سی نے اس بات کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے، جس کی وجہ سے ڈالر آج بھی کنٹرول میں ہے۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی نے مختلف خوردنی اشیاء کی بلیک مارکیٹنگ کو روکا، خاص طور پر گندم جیسی اشیاء، جو ڈیڑھ سے دو سو روپے کلو تک جا رہی تھیں، جس کو روک کر 100 سے نیچے لائے۔

ایس آئی ایف سی کی کارکردگی بہت بہترین تھی، مگر یہ ملک کے مافیا کو پسند نہیں آ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس مافیا کے لوگ ایس آئی ایف سی اور حکومت کے اداروں کو گمراہ کرتے رہے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ پیش کرتے ہیں۔

جب ایکسپورٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ ملک کو ضرور ہوتا ہے، مگر پاکستان جیسے ملک میں نہیں، کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایکسپورٹس کی اشیاء عوام کے لیے دستیاب نہیں ہوتیں، اور اگر ہوتی بھی ہیں تو بے تحاشہ مہنگی ہوتی ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں صرف اضافی اشیاء ایکسپورٹ کی جاتی ہیں، جبکہ پاکستان میں پہلے ایکسپورٹ کرتے ہیں، پھر بچ جانے والی چیزیں پاکستانیوں کے نصیب میں آتی ہیں۔

اگر قیمتوں میں کمی ہو جائے تو اپنی ہی ایکسپورٹ کردہ اشیاء بھی امپورٹ کر لیتے ہیں، جس کی کئی مثالیں رمضان میں کئی بار دیکھ چکے ہیں، اور آنے والے رمضان میں دیکھا جائے گا کہ اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گی، اور لوگوں کے لیے روزوں کے بعد عید منانا مشکل ہو جائے گا۔

ہمارے ملک کے دشمن سرحدوں کے پار نہیں، بلکہ ہمارے کاروباری اداروں کے اندر چھپے ہیں، جو پاکستان اور پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنی فریاد کس کو جا کر سنائیں، کیونکہ جو بھی حکومت آتی ہے، وہ امیدیں اور وعدے غریب انسانوں سے کرتی ہے، لیکن فائدے مخصوص طبقے کو پہنچاتی ہے۔ پاکستان کی جو بھی معاشی پالیسیاں ہیں، وہ مکسڈ اکانومی کے تحت چلانی چاہئیں، جس میں حکومت اور پرائیویٹ ادارے مل کر کام کریں۔ اس سے حکومت کو ہر ادارے کی کارکردگی اور قیمتوں کا تعین کرنا آسان ہو جائے گا، اور کوئی بھی پرائیویٹ ادارہ اپنی من مانی کرکے عوام کو غریب نہیں دھکیل سکے گا۔

یہ سب تب ممکن ہوگا جب ہمارے وہ ادارے، جن کی وجہ سے ایس آئی ایف سی کامیاب ہوئی، ان کی آگاہی درست لوگوں کو فراہم کی جائے گی، تو پھر وہ ادارے کبھی بھی پاکستان یا پاکستانی عوام کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے۔

مگر سوال یہ ہے کہ جو مافیا ہماری معیشت کو اس خوبصورتی کے ساتھ تباہ کر رہا ہے کہ بظاہر معیشت ترقی کرتی نظر آتی ہے، اور دوسری جانب عوام مشکلات میں گھر رہے ہیں۔ ملک عوام سے بنتا ہے، اور جب عوام ہی غریب سے غریب تر ہوں گے تو ملک کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا