بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایک طرف اُدھر چین اپنی فضائیہ کو جدید ترین خطوط پر بہت تیزی سے اُستوار کر رہا ہے اور اِدھر بھارتی فضائیہ اب تک 1980 کی دہائی میں جی رہی ہے۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے اکیسویں سُبروتو مکھرجی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فضائیہ نے 2010 میں جدید طرز کے 40 لڑاکا طیاروں ’’تیجس‘‘ کا آرڈر دیا تھا مگر اب تک پہلی کھیپ مل نہیں سکی ہے۔ دوسری طرف چین سکستھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی آزمائش کر رہا ہے۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کہتے ہیں کہ چین کو اپنی غیر معمولی علاقائی اور عالمی پوزیشن کا بھرپور احساس ہے اور وہ اِس سے مطابقت رکھنے والی ٹیکنالوجیز کا سہارا لے کر ایسا دفاعی ساز و سامان تیار کر رہا ہے جو بھارتی فوج کے لیے چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔ چین اور دیگر علاقائی ممالک اپنی فوج کی بڑے پیمانے پر فنڈنگ کر رہے ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لارہے ہیں۔ بھارت کو دفاعی ساز و سامان کی تیاری بہت بڑے پیمانے پر کرنی ہے مگر اس حوالے سے اب تک کچھ خاص نہیں ہو پایا ہے۔
بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے سُبروتو مکھرنی سیمنار کے شرکا کو یاد دلایا کہ پہلے تیجس طیارے نے 2001 میں اڑان بھری تھی اور باضابطہ پروڈکشن 15 سال بعد یعنی 2016 میں شروع ہوئی تھی۔ چین نے اسٹیلتھ طیارے کی آزمائشی پروازیں کی ہیں۔ سکستھ جنریشن کے اسٹیلتھ طیاروں کی پروازیں کسی اور ملک میں نہیں کی گئی ہیں۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کا کہنا تھا کہ اس طیارے (تیجس) کا تصور 1984 میں پیدا ہوا تھا۔ اِس کے 17 سال بعد پہلا طیارہ فضا میں بلند ہوا۔ بھارتی فضائیہ میں اس طیارے کو شامل کرنے کا عمل اس کے 15 سال بعد یعنی 2016 میں شروع ہوا۔ اب ہم 2025 میں ہیں۔ 40 طیاروں کی پہلی کھیپ اب تک بھارتیہ فضائیہ کو مل نہیں سکی ہے۔ جس طور تاخیر سے کیا گیا انکار کیا ہوا انصاف ہوتا ہے بالکل اُسی طور جو ٹیکنالوجی دیر سے آتی ہے وہ کسی کام کی نہیں ہوتی اور یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
کثیرالمقاصد طیارہ تیجس ہندوستان ایئروناٹکس لمٹیڈ کے بینر تلے تیار کیا جارہا ہے۔ بھارتی فضائیہ سے مِگ 21 طیاروں کو نکالنے کے لیے تیجس تیار کیے جارہے ہیں۔ غیر معمولی تعداد میں حادثات کے باعث مِگ 21 طیاروں کو اُڑتے ہوئے تابوتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بھارتیہ فضائیہ کے سربراہ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر سرکاری اسلحہ ساز ادارے ہدف پورا نہیں کر پارہے تو پرائیویٹ اداروں کو بھی دفاع ساز و سامان کی تیاری کا ٹاسک دیا جاسکتا ہے۔ مسابقت ہوگی تو معیار بلند ہوگا۔ محض سرکاری اداروں کو دفاعی ساز و سامان کی تیاری کا کام سونپنے سے معیار گرتا ہے کیونکہ مسابقت برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ اگر کسی ادارے کو اپنا آرڈر منسوخ کیے جانے کا خدشہ لاحق ہو تو وہ ڈھنگ سے کام کرے گا، ڈیڈ لائن کے مطابق ڈلیوری دے گا۔