مجاہد ملت قاضی حسین احمدؒ، یادیں اور باتیں

246

نیا سال طلوع ہوتا ہے تو مرد بحران مجاہد ملت اسلامی انقلاب کے داعی اتحاد امت کے علمبردار قاضی حسین احمدؒ کی جدائی کا زخم ہرا ہوجاتا ہے وہ 6 جنوری 2013ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے لیکن ان کا مسکراتا ہوا چہرہ ابھی تک آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے اور ان کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے وہ ایک سدا بہار شخصیت تھے نوجوانوں میں نوجوان، بزرگوں میں بزرگ۔ وہ اقبال کے فارسی اور اردو کلام کے حافظ تھے وہ دوران تقریر فارسی کلام خالص ایرانی لہجے میں پڑھتے تو سامعین پر سحر طاری کردیتے۔ مخالفین جماعت اسلامی کو طنزاً صالحین اور خواص کی جماعت کہتے تھے۔ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالی تو اس طنز کو ہوا میں اڑا کر جماعت کو عوام کی جماعت بنادیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی ممبر شپ عام لوگوں کے لیے کھول دی اور نفاذ اسلام کو ایک عوامی مسئلہ بنا کر عوام کو جذباتی طور پر اس سے وابستہ کردیا۔ انہوں نے ایک انقلابی لیڈر اور علامہ اقبال کے مرد مومن کی حیثیت سے امت مسلمہ میں اپنا کردار ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

کچھ یہی معاملہ قاضی صاحب کا تھا کشمیر ہو، فلسطین ہو، بوسنیا ہو، چیچینا ہو یا افغانستان۔ وہ ہر جگہ مسلمانوں کے مصائب پر تڑپ اٹھتے تھے اور ان سے جو کچھ ہوسکتا تھا کر گزرتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے بارے میں وہ بہت زیادہ جذباتی تھے اور سمجھتے تھے کہ کشمیر کو صرف جہاد کے ذریعے ہی آزاد کرایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جب افغانستان میں روس کی عبرت ناک شکست اور پسپائی کے بعد مقبوضہ کشمیر جہاد کا غلغلہ بلند ہوا تو قاضی صاحب نے اس کی پرجوش تائید کی اور کشمیر میں جہاد کو پروموٹ کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ مرد مجاہد سید علی گیلانی کے ساتھ بھی ان کا رابطہ تھا۔ وہ گیلانی صاحب کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس کو مقبوضہ کشمیر کا اصل سیاسی چہرہ قرار دیتے تھے۔

مقبوضہ کشمیر میں جہاد کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ قاضی صاحب کو یقین تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا وہی حشر ہوگا جو افغانستان میں روس کا ہوچکا ہے کہ اچانک امریکا میں نائن الیون برپا ہوگیا جس نے ساری بازی پلٹ کر رکھ دی۔ یہ ایک ایسی صہیونی سازش تھی جس نے پورے عالم اسلام کو شدید بحران میں مبتلا کردیا تھا اور امریکا جہادی سرگرمیوں کے خلاف کھل کر سامنے آگیا تھا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی اس نے امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر خود کو امریکا کے آگے سرنڈر کردیا اور برادر اسلامی ملک افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کے تمام بری، فضائی اور بحری وسائل امریکا کے حوالے کردیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی اس بزدلانہ حرکت پر قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے قومی سیاستدانوں کا اجلاس بلایا تو اس میں قاضی صاحب کو بھی مدعو کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس وقت جس شدید ترین بحران کا سامنا ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے انہوں نے امریکا کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تعاون کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکا کی حمایت حاصل کی جائے۔ جنرل پرویز مشرف خطاب کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے تو قاضی صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ خود اعتراف کررہے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت شدید ترین بحران کا سامنا ہے تو آپ نے اس بحران کا بوجھ اپنے کاندھوں پر کیوں اٹھا رکھا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ جو آئین آپ نے معطل کر رکھا ہے اسے بحال کردیں، قومی اتفاق رائے کی عبوری سول حکومت بنادیں اور فوج کو اس کے اصل کام کے لیے فارغ کردیں۔ بعدازاں صاف شفاف انتخابات کراکے نمائندہ حکومت قائم کردی جائے تا کہ پوری قوم اس بحران سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ قاضی صاحب بولتے رہے اور جنرل پرویز مشرف کے چہرے کا رنگ بدلتا رہا۔ قاضی صاحب خاموش ہوئے تو وہ اجلاس برخاست کرکے کانفرنس ہال سے نکل گیا۔ بعد میں قاضی صاحب عام جلسوں میں بھی ان خیالات کا اظہار کرتے رہے اور برملا یہ کہتے رہے کہ فرد واحد کو قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ آخر جنرل پرویز مشرف نے انہیں کوہاٹ شہر سے دس کلو میٹر دور ٹانڈہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند کردیا اور ان کی نگرانی پر پولیس، فرنٹیئر کور، اسپیشل پولیس، ایف بی آئی اور جیل کے عملے پر مشتمل ساٹھ افراد متعین کردیے۔ یہ لوگ ریسٹ ہائوس کی چھوٹی سی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ قاضی صاحب نے مسجد کی امامت سنبھال لی اور انہیں نماز پڑھانے کے علاوہ درس قرآن و حدیث بھی دینے لگے جبکہ حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی درس کے موضوع میں شامل ہوگیا اس طرح قاضی صاحب کو اپنے خیالات کے اظہار کا ایک پلیٹ فارم میسر آگیا۔ قاضی صاحب چونکہ پشتو میں خطاب کرتے تھے اس لیے اس کی شہرت مقامی آبادی میں بھی پھیل گئی اور لوگ شوق سے آپ کا خطاب سننے کے لیے آنے لگے۔ قاضی صاحب نے اسیری کے دوران قومی مسائل پر مضامین بھی لکھے اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ آخر عوامی دبائو پر انہیں رہا کردیا گیا۔

قاضی صاحب پر جنرل پرویز مشرف کا سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فوج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے جواب میں قاضی صاحب نے کہا ’’ہم نے فوج کو سیاست میں الجھانے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے فوج میں جب سیاست آتی ہے تو اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ فوج کے تمام افسروں کو ایک سیاسی فکر پر مجتمع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے اور وہ یک سو ہو کر دفاع وطن کا فریضہ انجام دے‘‘۔ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں قاضی صاحب کا یہ تجزیہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ قاضی صاحب نے انتہائی پرجوش ولولہ انگیز اور بامقصد زندگی گزاری۔ جماعت اسلامی کی امارت سے رضا کارانہ سبکدوش ہونے کے باوجود وہ اپنے مشن میں لگے رہے اور اسی تب و تاب زندگی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔