آگ کرم پاراچنار میں، دھرنے کراچی میں (آخری حصہ)

244

12 اکتوبر 2024 سے پاراچنار اٹل شاہراہ ہر قسم کی آمد و رفت اور ٹریفک کے لیے بندکردی گئی جس کے باعث اپر کرم کی چار لاکھ نفوس پر مشتمل شیعہ آبادی دسمبر 2024 تک آمدہ اطلاعات کے مطابق 75 دن گزرنے کے باوجود علاقے میں محصور ہو کر رہ گئی، علاقے میں ڈھائی ماہ سے ہر قسم کی سپلائی بند ہے۔ اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز پر ادویات ناپید ہو چکی ہیں، علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اب تک 50 سے زائد بچے موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ اے ٹی ایمز بند ہوگئے۔ فیول بھی کہیں دستیاب نہیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ ردعمل میں علاقے کے لوگوں نے کرم پریس کلب کے سامنے دھرنے دینا شروع کردیے۔ جس کے ساتھ ہی دسمبر کے اواخر سے کراچی میں بھی وحدت المسلمین کی طرف سے بارہ مقامات پر دھرنے شروع ہوگئے۔

12 اکتوبر سے بند شاہراہ جب نومبر 2024 میںحکومت کے تعاون سے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ٹریفک کے لیے کھولی گئی تو سنی اکثر یتی علاقے لوئر کرم میں دوسو کے قریب گاڑیوں کے قافلے پر بھاری فائرنگ ہوئی جس میں کم ازکم 44 افراد ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد حالات ابتر ہوگئے اور قبائل نے ایک دوسرے کے گائوں پر حملے کیے۔ تصادم اور فرقہ وارانہ فسادات وقوع پذیر ہوئے جن میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، درجنوں اغوا کیے گئے، گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ تصادم اتنا وحشیانہ تھا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد کو گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانا پڑا۔

اپر اور لوئر کرم کے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان تصادم میں اتنا کچھ ہوگیا ہے لیکن پاکستانی سیاست، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور میڈیا نے ان پر اتنی توجہ نہیں دی، جتنی کہ دی جانی چاہیے۔ ممکن ہے یہ خبریں آپ کی نظروں سے گزریں بھی نہ ہوں۔ یہاں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ تقریباً سو برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ 1938 میں غیر منقسم ہندوستان میں جب لکھنو میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہوئے تو یہاں بھی فساد پھوٹ پڑے۔ پھر 1967، 1971، 1977، 1982 میں بھی یہاں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فرقہ وارانہ فسادات 2007 میں یہیں ہوئے تھے جب شیعہ سنی آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف چار برسوں میں ان علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں ایک ہزار چھے سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ قبائلی عمائدین کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ پارا چنار میں کنٹونمنٹ ہے، فوج ہے، کرم ملیشیا، ایف سی، ڈی سی، اے سی سب ہی ہیں لیکن ان سب کی موجودگی میں یہاں آئے دن فسادات ہوتے ہیں۔ لوگ اس طرح رہتے ہیں جیسے دو دشمن ممالک میں۔

نومبر کے فرقہ وارانہ فسادات میں کرم میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے، درجنوں زخمی اور اغوا ہوئے، گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی لیکن کیا پاکستان کے وزیر داخلہ، صوبائی وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران موقع پر پہنچے اور صورتحال کو سنبھالنے کی کوئی کوشش کی؟ جواب ہے نہیں۔ کرم سے یہ بے اعتنائی اور غفلت پہلی مرتبہ نہیں ہے اس کی جڑیں تاریخ میں ہیں۔

نومبر1901 میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ہزارہ، پشاور، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو پنجاب سے الگ کرکے ایک نیا صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ NWFP تشکیل دیا جسے عرف عام میں صوبہ سرحد کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس صوبے کو انگریزوں نے ایک ڈپٹی کمشنر کے ذریعے چلانے کی کوشش کی۔ اس کے اوپر کی سات ایجنسیوں (باجوڑ ایجنسی، خیبر ایجنسی، کرم، مہمند، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان) میں انہوں نے ایک ایک الگ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا اور براہ راست مرکزی انڈین گورنمنٹ سے اسے چلایا جانے لگا۔ ان ایجنسیوں کو نہ صوبہ سرحد کا حصہ بنایا گیا اور نہ کسی سیاسی بندوبست کا۔ اس پورے علاقے کو انگریز سرکار نے ایک بفرزون کی حیثیت سے دیکھا۔ مخدوش سیکورٹی حالات کی وجہ سے ہندوستان میں ہونے والی ترقیاتی کاموں سے ان ایجنسیوں کو الگ ہی رکھا گیا۔ بیسویں صدی کے شروع میں جب ہندوستان میں نہروں اور سڑکوں کی تعمیر اور ان کا جال بچھایا جارہا تھا تو یہ غیر بندوبستی علاقے ان سے محروم رہے۔ 1909 میں ہونے والی مارلے منٹو ریفارمز ہوں یا 1919 میں منٹ فورڈ ریفارمز ان ایجنسیوں کو ان کا حصہ نہیں دیا گیا۔ ان اصلاحات کی بدولت پورے ہندوستان میں مقامی حکومتوں، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ترقی ہوئی لیکن ان ایجنسیوں کو ان ترقیاتی کاموں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ یوں یہ ایجنسیاں ہمیشہ کے لیے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر حوالوں سے باقی ہندوستان سے پیچھے رکھی گئیں۔ 1947 کی تقسیم کے بعد یہ علاقے پاکستان کے حصے میں آئے۔ پاکستان نے بھی انگریزوں کے پولیٹیکل ایجنٹ سسٹم ہی کو باقی رکھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ ہی اس علاقے کے سیاہ اور سفید کا مالک رہا۔ پاکستان بننے کے اکہتر برس بعد یہاں ایک مثبت تبدیلی آئی جب 2018 میں ان علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کردیا گیا جس کے بعد ان علاقوں میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن امکان ہے کہ یہ علاقے بھی اب باقی علاقوں کی طرح آگے بڑھ پائیں گے۔ کب تک۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پارا چنار میں ایک جرگے نے عارضی جنگ بندی کرادی ہے جس کے بعد کراچی سے دھرنوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ تاہم پارا چنار میں صدیوں سے جاری یہ جنگ پھر کب بھڑک اٹھے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب مخالف قبائل لڑتے ہیں تو ریاست پاکستان یہاں اپنی رٹ قائم کرنے میں مسلسل ناکام کیوں ہے۔ اس کا ایک سبب مشکل پہاڑی راستے ہیں جن کے سبب حکومت کا، مین پاور کا، یہاں بروقت پہنچنا ممکن نہیں۔ افغانستان کی سرحد نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں قبائل کے پاس مقامی سیکورٹی اداروں سے بھی بہتر اور جدید اسلحہ آگیا ہے جن کی وجہ سے جنگوں اور جنگجوئوں کو روکنا مقامی انتظامیہ کے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ کرم اور اس کے اردگرد کے علاقے آج داعش، ٹی ٹی پی اور کئی جنگجو گروہوں کے ٹھکانے بن گئے ہیں جو سرحد پار افغانستان میں بھی اپنے ٹھکانے رکھتے ہیں جن کے درمیان افغان کمیونی کیشن نیٹ ورک کے ذریعے رابطے رہتے ہیں جنہیں پاکستانی ایجنسیاں کنٹرول نہیں کر پاتیں جس کا فائدہ اٹھا کر یہ لوگ منصوبے بھی بناتے ہیں اور کامیابی سے ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔

کرم ایجنسی اور اس کے صدیوں پر پھیلے معاملات چند مہینوں اور چند برسوں میں ٹھیک نہیں ہوسکتے لیکن فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے والے عناصر کو کنٹرول کرکے، مقامی انتظامیہ کو مضبوط کرکے اور افغانستان سے بہتر تعلقات کے ذریعے ان علاقوں میں اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت اور حکومتیں اس کا معمولی عزم بھی رکھتی ہیں؟ جواب ہے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری طرز حکومت میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو ترقی اور اصلاحی کاموں کے باوجود یہاں سے دوچار صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی نشستیں ملنے کا امکان نہیں۔ ان علاقوں کے مسائل صرف اور صرف ایک اسلامی حکومت اور شریعت کے بندوبست سے کیا جاسکتا ہے جو فرقہ وارانہ تعصبات اور ہر طرح کی شرانگیزیوں کی جڑ کاٹ کررکھ دیتا ہے۔ جس میں خلیفہ وفاقی اور صوبائی سیٹوں کے حصول اور اس علاقے سے ہونے والی آمدنی کے لالچ میں ترقیاتی کام نہیں کرتا بلکہ فرات کے کنارے کتے کی پیاس بجھانا بھی اپنا ایسافرض سمجھتا ہے جس کے لیے وہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے۔