بنگلا دیش انہونیوں کی سرزمین بن گیا ہے۔ بنگالی عوام کا غصہ ردعمل اور نفرت جس سطح کو پہنچ گئی ہے اس نے اس قوم کو اپنی چوالیس سالہ تاریخ کی ازسرنو کھوج اور بازیافت کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ وہ ماضی کے ہر نقش کو مٹانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ ایک انہونی یہ ہے کہ بنگلا دیش کی نئی نسل مدتوں اپنا بنگلا بندھو یعنی بابائے قوم کہلانے اور رہنے والے شیخ مجیب الرحمان کے ہر نقش، تعلق اور یاد کا جوا گلے سے اُتار پھینکنا چاہتی ہے۔ بنگلا دیشی عوام کی اپنے ماضی سے بغاوت کی بڑی وجہ حسینہ واجد کا آمرانہ اور شخصی طرز حکومت ہے۔ ان کی پالیسیوں سے ہے۔ وہ اپنے والد کی محبت میں بنگلا دیش کی ’’مجیبائزیشن‘‘ کے لیے جو بھی قدم اُٹھاتی رہیں اور جو پالیسی بناتی رہی وہ حقیقت میں بنگلا دیشی عوام کو حسینہ واجد کے سسٹم سے دور اور ناراض کرنے کا باعث بنتی چلی گئی۔ شیخ حسینہ نے بنگلا دیش کو مجیب الرحمان کے مجسموں سے بھر دیا مگر جب بغاوت کی ہوا کا جھونکا چلا تو سب کچھ خس وخاشاک کی مانند بہہ گیا۔ اس میں بہت سوں کے لیے بہت سے سبق بھی پنہاں ہیں۔ اب نئی حکومت بہت سے ریاستی امور کے ساتھ ساتھ انتظامیہ بنگلا دیش کی ’’ ڈی مجیبائزیشن‘‘ کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھا رہی ہے۔ کرنسی نوٹوں سے شیخ مجیب الرحمان کی تصویر غائب ہونے کے بعد اب نصاب تعلیم کو نئے اسباق سے مزین کیا جا رہا ہے۔ انہی میں ایک نیا سبق یہ ہے کہ بنگلا دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان نہیں بلکہ ضیاء الرحمان ہیں۔
بنگلا دیش کے مورخین، محققین اور ماہرین نصاب کا اصرار ہے کہ یہ کوئی نیا سبق نہیں بلکہ بنگلا دیش کی تاریخ میں تحریف اور واقعات کی اصلاح ہے۔ ان کے مطابق شیخ حسینہ نے بنگلا دیش کی تاریخ کو اپنی پسند کا موڑ دینے کے لیے یہ افسانہ تراشا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے دوران ایک وائرلیس پیغام میں بنگلا دیش کا اعلان آزادی کیا تھا جو بنگلا ریڈیو پر یوں نشر ہوا تھا ’’میرا آپ لوگوں کے لیے یہ آخری پیغام بھی ہو سکتا ہے۔ آج بنگلا دیش کی آزادی کا دن ہے۔ آپ جو بھی ہیں جہاں ہیں اپنی آزادی کے لیے لڑیں۔ جئے بنگلا‘‘ بنگلا دیش کی نئی نصاب سازی میں شریک ایک رکن اور محقق راکھل رانا نے اسے مبالغہ آمیز اور مسلط کردہ تاریخ قرار دیا ہے۔ اب نئے نصاب میں یہ بات درج ہوگئی ہے کہ مارچ1971 میں بنگلا ریڈیو سے اعلان آزادی جنرل ضیاء الرحمان نے کیا تھا یوں بنگلا دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کے بجائے جنرل ضیاء الرحمان ہیں۔ اب سرکاری دفاتر سمیت اہم مقامات پر شیخ مجیب الرحمان کی جگہ ضیاء الرحمان کی تصاویر آویزاں ہوں گی اور انہی کی پیدائش اور وفات کے دن سرکاری طور پر منائے جاتے رہیں گے۔
مشرقی پاکستان میں ریاستی طاقت اور باغی قوتوں کے درمیان فیصلہ کن لڑائی تو جاری تھی مگر ابھی پاکستان کی فوج کی حالات پر انتظامی اور عسکری گرفت قائم تھی کہ میجر ضیاء الرحمان نے اپنے سینئر لیفٹیننٹ جنجوعہ کو قتل کرکے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے بنگلا دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ بنگلا دیش بننے کے بعد جب شیخ مجیب صدر بن گئے تو انہیں بابائے قوم قرار دیا گیا۔ اس کے لیے پھر شیخ مجیب الرحمان کے وائر لیس پیغام کا افسانہ گھڑا گیا۔ 15 اگست کو مجیب الرحمان کو ان کے اہل خانہ سمیت قتل کر دیا گیا۔ یہاں پندرہ اگست کی تاریخ اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس دن بھارت کا یوم آزادی تھا اور شیخ مجیب بھارت کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور بھارت کے بہترین دوست تصور کیے جاتے تھے۔ اس طرح شیخ مجیب کے خلاف بغاوت کے لیے اس دن کا انتخاب اپنے اندر ایک ایسا پیغام رکھتا تھا جو آج بھی مختلف حوالوں اور انداز سے دہرایا جا رہا ہے۔
شیخ حسینہ کے خلاف اُٹھنے والی بغاوت کی لہر میں صرف ان کا تخت وتاج ہی نہیں بہہ گیا بلکہ یہ طوفان بھارت اور بنگلا دیش کی دوستی محبتوں اور احسانات کی پوری تاریخ کو بھی بہا کر لے گیا۔ شیخ مجیب الرحمان کوقتل کرنے والے میجر مشتاق خود صدر بن گئے تھے اور انہوں نے ضیاء الرحمان کو آرمی چیف بنا دیا تھا۔ اس بغاوت کا انجام ایک اور بغاوت پر یوں ہوا تھا کہ خالد مشرف نے ضیاء الرحمان کو گرفتار کرکے خود میجر جنرل کے عہدہ حاصل کر لیا تھا۔ چند ماہ بعد لیفٹیننٹ ابو طاہر کی قیادت میں سوشلسٹ مزاج فوجی افسروں نے ایک اور بغاوت کردی اور کرنل راشد نے ضیاء الرحمان کو قید سے چھڑا کر دوبارہ آرمی چیف بنا دیا۔ ضیاء الرحمان کو خدشہ تھا کہ ابوطاہر ایک اور بغاوت کر یں گے سو انہوں نے 21 جولائی 1976 کو ابوطاہر کو قتل کرادیا اور چند ماہ بعد ملک میں مارشل لا نافذ کرکے خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس کے بعد سے بنگلا دیش کی سیاست مجیب الرحمان اور ضیاء الرحمان کے دو کیمپوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔
شیخ حسینہ اپنے والد کو بابائے قوم قرار دیتی رہیں اور خالدہ ضیاء اپنے خاوند کو قوم کا نجات دہندہ کہتی رہیں۔ دونوں خواتین اور کیمپوں میں پھر نظریاتی نقطہ ٔ اتصال قائم نہ ہوسکا۔ بنگلا دیش کی نئی نسل شیخ مجیب کو بنگلا بندھو کے طور عملی اور ذہنی طور پر قبول کر ہی چکی تھی مگر ان کی بیٹی شیخ حسینہ کے آمرانہ طرز حکومت اور بھونڈی اور بے ڈھنگی مجیبائزیشن کی کوشش نے بنگلا دیشی معاشرے میں خطرناک تقسیم پیدا کی اور ایسے زخم دیے جو مندمل نہ ہو سکے۔ یہاں تک کہ اب جب حالات ِزمانہ کے نتیجے میں شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہو گیا تو بنگلا دیش کی نسل نو نے ماضی کی تاریخ پر خط ِ تنسیخ پھیر دینے کا راستہ اپنالیا۔ اب شیخ حسینہ اگر اپنے والد کو بابائے قوم قرار دینے پر مصر رہیں گی تو بھی سرکاری طور پر اس منصب کے حامل ضیاء الرحمان ہی رہیں گے۔ یوں یہ تقسیم اس قدر گہری ہو گی کہ ہر کیمپ کا اپنا بابائے قوم ہوگا۔ ایک قوم کے اندر خلیج اور تقسیم کی گہرائی کی آخری حد یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہیروز اور ولن متفقہ نہ رہیں۔ تاریخ پر اتفاق قائم نہ رہے۔ حد تو یہ کہ نجات دہندہ اور بابائے قوم بھی الگ ہو کر رہ جائیں۔ تقسیم کے اس عمل میں پاکستان کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بنگلا دیش اس وقت صرف سیاسی تنوع اور تضادات کی زد میں ہے۔
پاکستان لاتعداد تضادات کا شکار ہے۔ جس میں کئی طرح کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں۔ مختلف یونٹس کے درمیان وسائل کی تقسیم پر شکایتیں ہیں۔ یہاں تقسیم کو اس قدر گہرا کرنے کا راستہ ترک کر دینا چاہیے کہ لوگوں کے ہیروز اور ولن الگ ہوجائیں۔ یہ تو خیریت گزر رہی ہے کہ عوام کے مقبول جذبات میں کئی یونٹس شریک ہیں۔ معاشرہ گہری تقسیم اور تضاد کی زد میں ہے۔ ایک طرف وسائل کی مالک و مختار حکمران کلاس ہے تو دوسری طرف مسائل کا شکار عوام ہے جن کے ہاتھ میں صرف موبائل ہے۔ قومی مفاد، حب الوطنی، اداروں کے تقدس اور احترام کے نام پر طاقت قانون سازی اور ڈنڈے کے ذریعے معاشرے کو یک رخا اور یک رنگا بنانے کی روش ایک مرحلے پر عوام کو اُکتا دیتی ہے۔ مجیبائزیشن کی طرح ملٹرائزیشن یا مسلسل تھوپی جانے والی کوئی بھی اصطلاح یہ حکمت عملی تادیرتو چل سکتی ہے مگر مستقل طور پر اپنی بہار نہیں دکھا نہیں سکتی اور ایسے میں جب اس عمل میں عوام فقط تماشائی ہوں یا نمائشی حیثیت کے شراکت دارتو یہ عدم توازن تقسیم کے عمل اور لکیر کو گہرا اور وسیع کرتا ہے۔ جس کے باعث کسی بھی دور کی نسل بگڑ بیٹھ جاتی ہے اور پھر اسے منانے میں مدتیں گزر جاتی ہیں۔