حافظ نعیم الرحمن کی پکار

244

یہ کرب و اذیت اب برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ وجود چھلنی ہے، زخم زخم ہے۔ صرف سوا سال کی مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی المیے نے کرۂ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پہ جنم لیا ہے کہ اس سے پہلے شاید تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دیکھی گئی۔ آج کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی قومیں، سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہلاکت خیز ایجادات، کائنات کی بلندیوں کو چھونے اور مریخ پہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے شوقین انسانوں کی درندگی نے درندوں کو شرمادیا ہے۔ درندگی کی سب سے بدترین مثال اسرائیل نے اور اس کے دہشت گرد حصے دار امریکا نے پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاستدانوں نے خاموش حمایت کے ذریعے اس درندگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے۔ ظالم کے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنا دراصل اس ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے۔ اس کے ظلم کی تصدیق کرنا اور اخلاقی جواز مہیا کرنا ہے۔

فلسطین کے ایک حصے غزہ میں جس انسانی المیہ نے آج سے چودہ ماہ پہلے جنم لیا گو کہ یہ ظلم تو کئی عشروں سے جاری ہے اور غزہ درحقیقت ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں بقول حافظ نعیم الرحمن اکیس لاکھ انسان بطور قیدی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب تو یہ مذبح میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 45،484 افراد کی شہادت (ایک اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ ملبے تلے دبے ہیں )، لاکھوں افراد زخمی ہیں، بیماری، سردی اور بھوک سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔

اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان سردی، بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ان کے خیموں پہ اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے، خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس موقع پہ امت مسلمہ کہاں ہیں؟؟ نبی مہربانؐ کے امتی کہاں ہیں؟؟ نبی مہربانؐ نے تو امت کو جسد واحد سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کسی تکلیف میں ہو تو پوری امت اس کرب کو محسوس کرتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے۔ لیکن وائے افسوس!! آج امت پر بے حسی طاری ہے۔

پاکستان میں جماعت اسلامی اس فرض کفایہ کو ادا کر رہی ہے۔ اسلام آباد میں غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں کھل کر اسرائیل اور امریکا کے ظلم کے خلاف آواز بلند کریں (عمران خان صاحب پتا نہیں کیوں امریکا اور اسرائیل کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے اب کیوں لب سیئے بیٹھے ہیں) حماس دہشت گرد نہیں ہے بلکہ امریکا دہشت گرد ہے جس کی سرکردگی میں اسرائیل یہ نسل کشی کررہا ہے۔ حماس اپنے دفاع کے لیے جدوجہد کررہی ہے قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔ حکومت اسلام آباد میں حماس کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دے۔ فلسطینی بچوں کی غذا، علاج، تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے، اسرائیلی و امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ امریکی غلامی سے نجات حاصل کیے بغیر نہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی کھل کر فلسطینیوں اور حماس کی اخلاقی و سفارتی مدد و حمایت کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کو سفارتی محاذ پہ تنہا کرنے کی مہم کا آغاز کیا جائے۔ اس وقت امتحان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے سربراہان اور ان کے پیروکاروں کا بھی ہے۔

عوام چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اس وقت تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر اور تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر امت مسلمہ بن کر سوچیں کہ انہیں اللہ و رسول کے احکامات پہ عمل کرنا ہے، آخرت میں جوابدہی کی فکر کرنی ہے یا ایسے لیڈروں کے پیچھے اپنے آپ کو تھکانا اور اپنی دنیا و آخرت کو داو پہ لگانا ہے جن کا سیاسی و دینی ایجنڈا غیر واضح، جن کی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر، جن کا رویہ افراط و تفریط پہ مبنی، جو اپنی خواہشات نفس کے غلام، جن کے آقا اللہ کے باغی و نافرمان اور ظالم ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے مشن و ویژن بھی قوم کو معلوم نہیں ہیں کہ وہ آخر چاہتے کیا ہیں؟ کیا ایسے لیڈروں کے پیچھے اپنی عمر، جوانی، مال، صلاحیتیں، جان سب کچھ لگانے سے اللہ کی رضا و جنت مل سکتی ہے؟؟

دنیا اپنے اختتام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے!! اس وقت ہمارا کیا ہوا ہر ہر فیصلہ اور اٹھایا ہوا ہر ہر قدم ہمیں یا تو انجام خیر کے قریب کرے گا یا خاکم بدہن ہمیشگی کی ذلت و رسوائی میں دھکیل دے گا۔ آخری معرکہ برپا ہونے کو ہے فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہوں!!! حق والوں کی صف میں یا باطل کا ساتھ دینے والوں کی صف میں؟