جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان اقتصادی ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چین، پاکستان، اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایک نیا تجارتی راستہ متعارف کروایا ہے۔ یہ منصوبہ، جو کاشغر سے شروع ہو کر پاکستان کے خنجراب پاس سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے جبل علی کی بندرگاہ تک 10 روز میں پہنچتا ہے، (واضح رہے کہ اس سے قبل کاشغر سے جبل علی تک سامان کی ترسیل کا عرصہ 30 روز پر مشتمل تھا) اس نئے راستے کی بدولت جہاں تجارت تیز اور مؤثر ہوگی بلکہ پاکستان کے لیے یہ راہداری علاقائی اور عالمی سفارتکاری کے ایک نئے دور کا آغاز بھی کر سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے مختلف سیاسی، معاشی، اور عسکری تنازعات کا مرکز رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کے انڈو پیسیفک اور کواڈ (Quad) میں کردار نے خطے میں ایک نیا سفارتی دباؤ پیدا کیا ہے، جس کا مقابلہ چین اور پاکستان کی شراکت ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں جاپان کا کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ جاپان ایک ایسی طاقت ہے جو مشرقی اور مغربی سفارت کاری کو جوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ چونکہ بھارت اور جاپان دونوں کواڈ کا حصہ ہیں اس لیے اس راہداری کا انڈو پیسیفک اور کواڈ سے موازنہ بھی ضروری ہے۔ انڈو پیسیفک حکمت عملی، جسے امریکا، بھارت، جاپان، اور آسٹریلیا کی کواڈ تنظیم کی حمایت حاصل ہے، خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو محدود کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے، جس کا اہم ہدف چین کے خلاف ایک توازن پیدا کرنا ہے۔ بھارت اور جاپان کے درمیان دفاعی تعلقات کواڈ کے اہم ستون ہیں، جو چین کی معاشی اور عسکری حکمت عملی کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ چین، پاکستان، جبل علی تجارتی راہداری خطے میں ایک ایسا متبادل فراہم کرتی ہے، جو نہ صرف چین بلکہ جاپان جیسے ممالک کو بھی اقتصادی مواقع فراہم کر سکتی ہے۔ ہر چند کہ اس راہداری سے جاپان کا براہ راست تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود جاپان، جو مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ساتھ تجارتی اور توانائی کے تعلقات رکھتا ہے، چین میں قائم جاپانی لاجسٹک کمپنیوں کے ذریعے معیشت اور سفارت کاری کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
بھارت کے ساتھ جاپان کے مضبوط تجارتی تعلقات اور کواڈ میں شمولیت کی بناء پر جاپان ایک ایسے مقام پر ہے جہاں اسے چین اور بھارت کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ جاپان کے تجارتی تعلقات جاپان کو نہ صرف چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا موقع دیں گے بلکہ بھارت کے مقابلے میں ایک متوازن حکمت عملی اپنانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے جیساکہ ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے کہ چین میں موجود جاپانی کمپنیوں کے لیے یہ راہداری مشرقِ وسطیٰ تک اپنی مصنوعات پہنچانے کا ایک تیز تر اور کم لاگت راستہ فراہم کرسکتی ہے، بلکہ جاپانی مشینری، گاڑیاں، اور ٹیکنالوجی کی مصنوعات مشرقِ وسطیٰ کی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اس راہداری کا بھرپور استعمال کر سکتی ہیں۔
جاپان، جو اپنی توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ سے پورا کرتا ہے، اس راہداری کے ذریعے تیل اور گیس کی درآمد کو مزید مؤثر بنا سکتا ہے۔یہ راہداری نہ صرف اقتصادی ترقی بلکہ علاقائی روابط کے لیے بھی ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی یہ راہداری ایک اہم اور بنیادی اہمیت اختیار کرسکتی ہے مثلا ایران اپنی توانائی کی برآمدات کے لیے اس راہداری کو استعمال کر سکتا ہے، اور پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا موقع بھی حاصل کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان کے لیے بھی یہ راستہ خاص طور پر گوادر بندرگاہ کے ذریعے تجارت کا ایک کم خرچ اور مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔
سعودی عرب، جو مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم اقتصادی مرکز ہے، اس راہداری کے ذریعے چین اور جنوبی ایشیا کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنا سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں تعاون کے ایک نئے ماڈل کی صورت میں ایک ایسی سفارتی حکمت عملی کا آغاز کر سکتا ہے جو صرف چین اور پاکستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جاپان، سعودی عرب، ایران، اور دیگر ممالک کو بھی ایک ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔علاقائی تعاون کے حوالے سے اگر اس منصوبے کا موازنہ انڈو پیسیفک سے کیا جائے تو انڈو پیسیفک کی بنیاد پر چین کے خلاف عسکری اور اقتصادی اتحاد پر ہے، جبکہ چین، پاکستان-جبل علی راہداری خطے میں معاشی تعاون اور ترقی پر زور دیتی ہے۔ مزید برآں انڈو پیسیفک کا مرکزی نقطہ عسکری پہلو پر مرکوز ہے، اس کے برعکس یہ راہداری تجارت اور اقتصادی ترقی کے ذریعے خطے میں استحکام پیدا کر سکتی ہے۔
انڈو پیسیفک میں جاپان کا کردار عسکری ہے، جبکہ اس راہداری کے ذریعے جاپان کو اقتصادی مواقع حاصل ہو سکتے ہیں جو اس کی معیشت کو تقویت دیں گے۔اس منصوبے کی پاکستان کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ سفارتی اہمیت بھی ہے، اورچین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات مضبوط ہونے سے پاکستان خطے میں ایک اہم مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔اور اس سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے بھی راستے ہموار ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں یہ منصوبہ پاکستان کو عالمی سیاست میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کا موقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔
چین، پاکستان جبل علی تجارتی راہداری نہ صرف ایک اقتصادی منصوبہ ہے بلکہ ایک سفارتی حکمت عملی بھی ہے جو ترقی اور توازن کی نئی راہیں کھول کر جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، اور مشرقِ بعید کو جوڑ سکتی ہے۔ جاپان، چین، اور پاکستان کے درمیان تعاون کا یہ ماڈل خطے میں ترقی اور استحکام کا نیا باب کھول سکتا ہے، اور ساتھ ہی انڈو پیسیفک حکمت عملی کا ایک مثبت اور متوازن جواب بھی فراہم کر سکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ وقت انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی اہمیت کو معاشی اور سفارتی ترقی کے لیے استعمال کرے اور جاپان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کر ے۔