بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کے خاتمے کے بعد 11 نومبر 2024 کو پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان شروع ہونے والی سمندری تجارت کے بعد اب اطلاعات ہیں کہ حکومت نے رواں ماہ میں تین اعلیٰ سطحی وفود بنگلا دیش بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بنگلا دیش کے ساتھ مختلف شعبوں میں باہمی تعاؤن کے نئے موقع کھولے جائیں، یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان گزشتہ ماہ قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والے تجارتی وفود سرفہرست ہوں گے، اہم کاروباری شخصیات پر مشتمل وفد 20 سال بعد بنگلا دیش کا دورہ کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ بعد میں بنگلا دیش سے بھی ایسا ہی ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا، علاوہ ازیں ایک ثقافتی وفد دارالحکومت ڈھاکا کے علاوہ بنگلا دیش کے مختلف شہروں کا بھی دورہ کرے گا۔ دونوں ممالک کے مختلف شہروں کے درمیان پروازیں شروع کرنے کے دائرہ کار کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے، جو دوطرفہ تعلقات اور کاروبار کو بڑھانے میں اہم کردار اداکرے گا، طرفین نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں تعینات اپنے ہائی کمشنرز سے کہا ہے کہ وہ ہمہ گیر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام کریں، وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار اپنے ہم منصب کی دعوت پر بنگلا دیش کا دورہ بھی کریں گے۔ پاکستان سے اس ملک کا 13 سال میں یہ پہلا اعلیٰ سطح کا دورہ ہوگا، ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد یونس کو اسلام آباد میں یوم پاکستان کی عظیم پریڈ میں بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار کے دورے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف بھی بنگلا دیش کا دورہ کریں گے۔ ادھر وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات عنبرین جان اور پاکستان میں بنگلا دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان میڈیا تعاون اور عوامی سطح پر روابط کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزارت اطلاعات و نشریات میں ہونے والی ملاقات میں فریقین نے مشترکہ تاریخی بیانیے اور ثقافتی اقدار کو اُجاگر کرنے کے لیے بہتر شراکت داری پر توجہ مرکوز کی جو باہمی افہام و تفہیم کو تقویت دیتی ہے۔ سیکرٹری اطلاعات عنبرین جان نے کہا کہ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان دیرینہ سفارتی اور ثقافتی تعلقات موجود ہیں اور دونوں ممالک کی مختلف شعبوں میں تعاون کی مشترکہ تاریخ ہے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن، ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان اور ریڈیو پاکستان سمیت ریاستی میڈیا اداروں کے اپنے بنگلا دیشی ہم منصب اداروں کے ساتھ مشترکہ پروڈکشن اور خبروں کے تبادلے کے شعبوں میں اشتراک کار پر زور دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سماج میں انسانوں کے درمیان باہمی محبت کے باوجود رنجشیں، عداوتیں، کشیدگی، خفگی اور آزردگی پیدا ہو جاتی ہیں بعینہٖ قوموں اور ممالک کے درمیان بھی تلخیاں درآتی ہیں، بین الاقوامی تعلقات میں بھی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیاں اور کشیدگیاں مستقل نہیں ہوتیں، دشمن تصور کیا جانے والا ملک مشترکہ مفادات کے یکساں ہونے پر دوست بھی بن سکتا ہے، یہی مسلمہ سفارتی اصول ہے، بین الاقوامی تعلقات میں قومی مفادات کی پاسداری کا یہی طریقہ ہے۔ جیو پالیٹکس ڈائنامکس بھی یہی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور سویت یونین پراکسی وار میں مصروف رہے، مگر 1991 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کا روس سے متعلق لب و لہجہ بدل گیا، لداخ سمیت دیگر معاملات میں چین اور بھارت کے درمیان تنازعات کے باوجود ان میں اب بھی تجارتی لین دین جاری ہے، فرانس اور جرمنی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں متحارب فریق بنے رہے لیکن مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے یورپی یونین کے قیام میں شراکت دار بنے، امریکا نے ویت نام پر حملہ کیا اور یہ جنگ 20 سال تک جاری رہی مگر آج ان کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں اور ہمارے حکمرانوں کی غلط حکمت ِ عملیوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا بنگلا دیش بن جانا ایک ایسی سیاسی غلطی تھی جس کا آج تک ازالہ ہونا ممکن نہ ہوسکا، ماضی کے تلخ قصے پر خاک ڈال کر اگر مستقبل پر نگاہ رکھتے ہوئے پیش آمدہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سمیت میڈیا تعاون و عوامی روابط کا آغاز خوش آئند نظر آتا ہے، بنگلا دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کو ہمیشہ 71ء کے تناظر میں دیکھا اسی لیے طرفین میں باہمی تعاون فروغ نہیں پاسکا اور عملاً پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تجارت کی کشتی جوار بھاٹے کی زد میں رہی، حسینہ واجد نے 2009 میں کچھ پابندیاں عاید کیں اور پاکستان کی کچھ مصنوعات کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا تاہم 2017 سے 2022 تک بنگلا دیش سے پاکستان کی درآمدات میں 1.8فی صد اضافہ ہوا، پاکستان سے تعمیراتی میٹریل، ٹیکسائل کے کیمیکلز، کپاس، زرعی اجناس، پھل، سبزی، چاول اور دیگر اشیاء برآمد کی جاتی ہیں، 2023 میں پاکستان سے سترہ ہزار کنٹینرز بنگلا دیش بھجوائے گئے، لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تجارتی لین دین براہ راست نہیں تھا، بلکہ سری لنکا اور دبئی کے ذریعے ہو رہا تھا، 6 سال سے دونوں ممالک کے مابین فضائی رابطے بھی منقطع تھے، لیکن محمد یونس کا بطور عبوری سربراہ بننے کے بعد جس طرح کے باہمی تعاون کی فضا بنتی نظر آرہی ہے وہ خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ اس وقت بنگلا دیش کی معیشت 454 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی معیشت 340 ارب ڈالر کے حجم پر ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی تجارتی جہاز براہ راست بنگلا دیش کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہورہے ہیں، اور پہلا بحری جہاز ’’یوآن ذیانگ فازان‘‘ کراچی سے بنگلا دیش کے ساحلی شہر چٹاگانک کی بندرگاہ پہنچا۔ دو طرفہ اقتصادی تعاؤن اور تجارت کا فائدہ دونوں ممالک کو پہنچے گا، پاکستان کے وہ تجارتی بحری جہاز جو پہلے تجارتی سامان سری لنکا، ملائیشیاء دبئی اور سنگاپور میں اتار کر فیڈر جہازوں کے ذریعے بنگلا دیش پہنچتے تھے جس سے اشیاء کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا تھا وہ اب تجارتی خسارے کے بغیر کم لاگت میں براہ راست پہنچیں گے، باہمی تجارت سے تجارتی حجم میں بھی اضافہ متوقع ہے، جس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، گارمنٹس کی صنعت بنگلا دیش کی معیشت کا اہم ستون ہے، گارمنٹس کی صنعت کے لیے پاکستان سے خام مال کی درآمد سے اس صنعت کو مزید ترقی ملے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ تجارتی تعلقات کے فروغ کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور ثقافتی مراسم بھی مضبوط ہوں گے جو خطے میں معاشی ترقی اور استحکام کا باعث بنیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ اقتصادی تعاون کے دائرے کو بتدریج تعلیم، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، توانائی، کھیل، سیاحت اور دیگر شعبوں تک وسیع کیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں، باہمی رنجشیں بھی دور ہوں، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور ذہنی و ثقافتی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے اور صورتحال پاکستان بنگلا دیش تعلقات کے تناظر میں اقبال کی خواہشوں اور آرزؤں کا آئینہ دار بنے کہ
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گْل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی