ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا‘ فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی سوال آئینی ہے‘عدالت عظمیٰ

94

اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہے، آئین کے مطابق ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی سوال آئینی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ عدالت نے 9 مئی ملزمان کے ساتھ جیل میں روا رکھے جانے والے رویے کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ اس پر جسٹس جمال نے پوچھا کہ کیا وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہے، ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی آئینی سوال ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8 (3) فوج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل8 (3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں شہریوں کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں، جتنے دوسرے شہری۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال ہی یہی ہے کہ فوج کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اس کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟ خواجہ حارث نے کہا یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت آج(منگل) تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث آج بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ آئینی بینچ نے آج سماعت کے لیے مقرر دیگر تمام مقدمات منسوخ کر دیے گئے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ منگل کو بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔ سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آ گئے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کو عام جیلوں میں دیگر قیدیوں کو ملنے والے تمام حقوق نہیں دیے جا رہے، قیدیوں سے جیلوں میں رویہ بھی فوج کی حراست جیسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو سزائیں سنائی گئی ہیں، اس میں وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔ عدالت نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان کے ساتھ جیل میں برتے جانے والے رویے کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔