اقوام متحدہ نے جمعہ 10 مارچ 2023ء کو مسلمانوں کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لیے پہلا عالمی دن منایا۔ اس موقع پر جنرل اسمبلی میں ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں مقررین نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت، امتیاز اور تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر زور دیا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا اور یورپ غزہ کے قتل عام میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور حمایت کر رہے ہیں اور اس کے بعد بھی ان کو سکون نہیں مل رہا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف عسکری، قانونی اور آئینی جنگ بھی جاری ہے اس کے ساتھ ہی اسلامی ممالک مسلمانوںکے خلاف پابندیاں بھی سخت سے سخت کی جارہی ہیں۔
نئے سال میں یہ خبر آرہی ہے کہ سوئٹزرلینڈ جہاں ہرطرح کے انسانوں کے لیے آزادی کا شور مچایا جاتا ہے وہاں عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے پر متنازع پابندی، جسے ’برقع پابندی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یکم جنوری 2025ء سے نافذ العمل ہوگئی ہے۔ اس قانون کو 2021 میں ایک ریفرنڈم کے بعد منظور کیا گیا تھا اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی تھی۔ یہ اقدام اسی جماعت کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس نے 2009 میں مساجد کے نئے میناروں پر پابندی عائد کرنے کا اہتمام کیا تھا۔
فرانس، سری لنکا، انڈین میں بھی اسی طرح کی پابندی لگ چکی ہے۔ انڈیا میں یہ کام وہاں کی عدالت عظمیٰ نے 2023ء میں ایک حکم کی مدد سے کروا دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر منقسم فیصلہ دیا تھا لیکن اس پر عمل کیا جارہا ہے۔ مسلمان برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں، جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس پابندی کی منظوری پر تنقید کی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں اس پابندی کو ایک ’خطرناک پالیسی‘ قرار دیا تھا جو خواتین کے حقوق، بشمول اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن اب وہ بھی خاموش ہے۔ اس فیصلے کے خلاف امریکی ایمنسٹی نے بھارت پر سخت پابندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن یہ سب ’’نقارخانے میں توتی کی آواز‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مردم شماری کے مطابق، 310.807 مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 4.26 فی صد تھا جس میں سوئٹزر لینڈ میں رہ رہے تھے۔
سوئٹزر لینڈ میں ریفرنڈم کے بعد، سوئس پارلیمنٹ نے ستمبر 2023 میں چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کے حوالے سے حتمی قانون سازی کی تھی۔ نومبر 2024 میں حکومت نے کہا تھا کہ یہ پابندی یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو گی۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومتی فیڈرل کونسل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے پابندی کا آغاز طے کر دیا ہے اور جو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا اسے 1,000 سوئس فرینک (تقریباً تین لاکھ پاکستانی روپے) تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ اب پڑوسی ملک فرانس اور آسٹریا سمیت پانچ دیگر یورپی ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں اس طرح کی پابندی عائد ہے۔ واضح رہے کہ اس قانون میں سیکورٹی، موسم یا صحت کی وجوہات کی بنا پر چہرے کو ڈھانپنے کی اجازت ہو گی۔ فنکارانہ اور تفریحی مقاصد اور اشتہارات کے لیے بھی اس کی اجازت ہو گی۔
متنازع ’’نائن الیون کے المیے کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دنیا بھر میں نفرت اور ان کے بارے میں ادارہ جاتی سطح پر بدگمانی وبائی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ایک بیانیہ تیار کر کے اسے آگے بڑھایا گیا ہے جو مسلمان معاشروں اور ان کے مذہب کو تشدد اور خطرے سے جوڑتا ہے‘‘۔ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہے ’’مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی یہ بیانیہ انتہا پسندانہ اور گھٹیا پروپیگنڈے تک ہی محدود نہیں بلکہ افسوسناک طور سے اس نے ذرائع ابلاغ، علمی شعبے، پالیسی سازوں اور ریاستی مشینری کے بعض حصوں میں بھی قبولیت حاصل کر لی ہے۔ اب یہ حقیقی معلوم ہوتی ہے کہ متنازع نائن الیون کے المیے کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کے لیے اسٹیج کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ بھی سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی جڑیں یہودیوں کے خلاف تعصب یا اجنبیوں کے خوف سے ملتی ہیں جس کا اظہار امتیازی اقدامات، سفری پابندیوں، نفرت پر مبنی اظہار اور دوسرے لوگوں سے بدسلوکی اور انہیں ہدف بنائے جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک مذہب یا عقیدے کی آزادی کو قائم رکھیں جس کی ضمانت شہری و سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق میں دی گئیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ ذمے داری ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب یا ایسے ہی کسی اور طرزعمل کے خلاف آواز اُٹھائے، ناانصافی کی مخالفت کرے اور مذہب یا عقیدے کی بنا پر امتیازی سلوک کی مذمت کرے‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سب کچھ ایسے ممالک میں ہو رہا ہے جہاں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور نہیں معلوم کہ ان میں تعصبات کیوں موجود ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لیے پہلا عالمی دن 10 مارچ 2023ء کے موقع پر جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو درپیش بڑھتی ہوئی عالمی نفرت کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ نسلی قوم پرستی، نیو نازی سفید فام برتری کے نظریوں اور مسلمانوں، یہودیوں، بعض اقلیتی عیسائی برادریوں اور دیگر کے خلاف تشدد کا نیا ظہور ہے اس ظہور کا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ ایک بے رحمانہ کوشش کا حصہ ہے۔ امتیازی رویہ ہم سب کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کے خلاف کھڑا ہونا ہم سب پر فرض ہے۔ ہم چپ چاپ رہ کر تعصب ہوتا نہیں دیکھ سکتے‘‘۔ انتونیو گوتیرس نے ’’اپنے دفاع کو مضبوط بنانے‘‘ پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ’مذہبی مقامات کے تحفظ کے عملی منصوبے‘ جیسے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے سماجی تعلقات میں اضافے کے لیے سیاسی، ثقافتی اور معاشی اقدامات بڑھانے پر بھی زور دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا کہنا تھا کہ ’’تعصب جہاں کہیں اور جب بھی اپنا بدصورت چہرہ سامنے لائے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس میں اْس نفرت سے نمٹنے کے اقدامات بھی شامل ہیں جو انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ دنیا بھر کی حکومتوں، نگران اداروں، ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور میڈیا کے ساتھ مل کر ’’حفاظتی اقدامات وضع کرنے اور ان کے نفاذ‘‘ میں مصروف ہے‘‘۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نفرت پر مبنی اظہار کے خلاف حکمت عملی اور منصوبے نیز ’’ہمارے مشترکہ ایجنڈے‘‘ جیسی دیگر پالیسیاں پہلے ہی شروع کی جا چکی ہیں جو تمام لوگوں کے لیے مزید مشمولہ اور محفوظ ’’ڈیجیٹل مستقبل‘‘ کے لیے فریم ورک کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے دنیا بھر کے مذہبی رہنماؤں کے لیے ممنونیت کا اظہار بھی کیا جو مکالمے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے متحد ہوئے ہیں۔ انہوں نے ’’عالمی امن اور بقائے باہمی کے لیے انسانی اخوت‘‘ پر پوپ فرانسس اور الازہر کے امام اعلیٰ شیخ احمد الطیب کے 2019 میں تحریر کردہ اعلامیے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ’’ہمدردی اور انسانی یکجہتی کے لیے نمونہ‘‘ قرار دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں عمل سے دور بہت ہی دور ہیں، آج بھی عالم اسلام کی خواتین کے نقاب سے نہ جانے پوری عالم کفر کو کون سا خوف لاحق ہے۔