مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے؟

238

تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ختم ہوچکا۔ تحریک انصاف نے حکومت کے سامنے اور مطالبات رکھ دیے۔ اوّل یہ کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور دوم یہ کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ آئندہ ہفتے مذاکرات کا تیسرا دور ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق کی زیر صدارت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں۔ جناب ایاز صادق کا کہنا ہے کہ میں محض سہولت کار ہوں۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کہتے ہیں کہ مذاکرات کا عمل طویل ہوتا ہے۔ دو ملاقاتوں میں کچھ نہیں ہوتا اور مزید یہ کہ مشاورت کے لیے ہمیں وقت چاہیے۔

مخلوط حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر مشتمل ہے اس کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ ہے تاہم مذاکرات کی کامیابی کا دارو مدار مذاکراتی ٹیم کے بااختیار ہونے پر ہے جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں ٹیمیں زیادہ بااختیار نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ مذاکراتی ٹیم جس قدر مختصر ہوگی اتنی زیادہ اپنے ہدف کو پہنچنے کی صلاحیت کی حامل ہوگی جبکہ مذاکراتی ٹیم میں زیادہ افراد کی موجودگی مذاکراتی عمل کو یکسو نہیں ہونے دیتی جیسا کہ پاکستان قومی اتحاد پی این اے اور اس وقت کی حکومت کے درمیان مذاکرات میں دونوں جانب سے محض تین تین رہنمائوں نے شرکت کی تھی گوکہ وہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے کیونکہ حکومت معاہدے پر دستخط کرنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کررہی تھی جن کی وجہ سے بالآخر جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لگ گیا۔ مزید برآں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ مذاکراتی ٹیم کا بااختیار ہونا ضروری ہے اس حوالے سے بھی پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کی مثال بڑی واضح ہے۔ پی این اے کی جانب سے مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور جبکہ حکومت کی جانب سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اور وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی جیسی بااختیار شخصیات شامل تھیں جبکہ حالیہ مذاکرات کی صورت حال کافی مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کو بات چیت پر عمران خان سے رہنمائی اور اجازت چاہیے جو اس وقت جیل میں بند ہیں، قیدی ہو کر یا آزاد رہ کر مذاکرات میں حصہ لیتے وقت سوچ اور جذبات میں بڑا فرق ہوتا ہے جبکہ حکومتی ٹیم بھی محض وزیروں اور مشیروں تک محدود ہے، فیصلے کا اصل اختیار وزیراعظم شہباز شریف کے پاس ہے مگر وہ بھی مخلوط حکومت کی وجہ سے مجبور ہیں کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے چیئرمین بلاول زرداری اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کے ساتھ مشورہ کرلیں علاوہ ازیں وزیراعظم کے لیے بڑے بھائی جان میں نواز شریف کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

مذکورہ مذاکرات کے پورے عمل کو اگر دیکھا جائے تو یہ محض ایک بریک تھرو ہے اس سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ مذاکرات کو نتیجہ خیز یا فیصلہ کن ثابت کرنے کی اصل طاقت مذاکراتی ٹیم یا ان کے قائدین سے کہیں زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک طاقتور پارٹی ہے۔ مخلوط حکومت کی تشکیل اور پی ٹی آئی کی تذلیل کا براہ راست الزام اسٹیبلشمنٹ پر ہی ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ جائے اسی لیے نواب اکبر بگٹی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں زور آور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کروں گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کو جان بوجھ کر طول دے کر امریکا میں صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا انتظار کیا جارہا ہے جبکہ یہ امکان بھی بہت زیادہ ہے کہ ٹرمپ حکومت پاکستانی حکمرانوں کو ٹف ٹائم دے گی جس کی وجہ عمران خان سے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان کی ملٹری پاور کو کمزور کرنا ہوگا۔ لہٰذا تمام سیاسی اور جمہوری قوتیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اگر امریکا نے کوئی دبائو بڑھایا تو اس کے نتیجے میں حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات بھی ناکام ہوجائیں گے اور مذاکرات کی ناکامی کے بعد اسٹیبلشمنٹ آگے بڑھ کر سارا سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل کردے گی۔ بہرحال سیاستدانوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں تھی مگر یہ مسلسل غلطیوں اور غفلت کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ نکلنے والا ہے جو پہلے سے زیادہ بھیانک ہوگا اور اس کے ذمے دار سیاستدان ہوں گے۔