اسٹاک ایکس چینج میں بہتری کا فائدہ صرف 33 خاندانوں کو ہوتا ہے

198

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) پاکستان میں ا سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہے۔پاکستان کی آبادی تقریبا 23 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ ا سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔اس لیے پاکستان میں ا سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔پاکستان کے صرف 33 خاندان ایسے ہیں جو ا سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ا سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33 خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عوام کو،اسٹاک ایکسچینج کی اچھی کارکردگی کو مکمل تو نہیں کہا جاسکتا ہے مگراس کا اثر ملکی معیشت پر بہت زیادہ ہوتاہے۔ ان خیالات کا اظہارپاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر احمد چنائے،سابق حکومتی
ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم ،کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ اور اسٹاک ایکسچینج کا تجربہ رکھنے والے معروف تجزیہ کار محمد شاہدنے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال:کیا اسٹاک ایکسچینج کی اچھی کارکردگی معیشت کی بہتری کا ثبوت ہے؟ کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ٓاحمد چنائے کا کہنا تھا کہ ا سٹاک ایکسچینج کی اچھی کارکردگی کو مکمل تو نہیں کہا جاسکتا ہے مگراس کا اثر ملکی معیشت پر بہت زیادہ ہوتاہے۔ اگر اسٹاک ایکسچینج بہتر چل رہی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو ملکی معیشت پر اعتماد ہے اور لوگ اپنا سرمایہ اسٹا ک ایکسچینج میں لگا رہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ظاہر ہے کہ ہماری ا سٹاک ایکسچینج بڑی انڈر ویلیوڈ تھی اور جب ملکی معیشت میں بہتری آئی اور یہ طے ہو گیا کہ اب ہمارا ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا تو پھر لوگوں نے ا سٹاک ایکسچینج میں جو انڈر ویلیوٹ تھی اس میں انویسٹمنٹ کرنا شروع کیا اور اس کے بعد پھر ظاہر ہے ملکی معیشت میں اور بہتری آ گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ بہت ساری چیزوں میں جہاں ہمارا انٹرسٹ ریٹ کم ہوا وہاں ڈالر کے ریٹ بھی کم ہوئے ہیں اور ڈالر اپنی جگہ بر قرار رہا ہے اس کے بعد آگے بھی انٹرسٹ ریٹ کم ہونے کی نوید ہے کہ جون کے مہینے تک ڈبل ڈیجٹ سے سنگل ڈیجٹ میں آ جائے گا تو یہ ساری چیزیں اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ ملک کی معیشت صحیح ٹریک پہ چل رہی ہے تو یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں کہ اکنامی کی بہتری اور اسٹاک ایکسچینج کی بہتری ہوتی ہے تواس کا اثر ملک کی معیشت پر بھی آتا ہے اور ایک پرسپشن بھی اچھا ہو جاتا ہے اور لوگوں کے پاس کہنے کو بھی ہوتا ہے کہ ا سٹاک ایکسچینج بہت بہتر جا رہا ہے تو ملک کی معیشت بہتر ہے تو یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔انہوں نے کہاکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز بہتر ہو تو دوسری چیز بہتر نہ ہو دوسری چیز کو بھی بہتر ہونا ضروری ہے ، میں پر امیدہوں کہ 2025 کا سال ا سٹاک مارکیٹ کیلئے ایک اور یادگار سال ہوگا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ دنیا میں عوام کی بڑی تعدادا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی آبادی تقریبا 23 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ ا سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔اس لیے پاکستان میں ا سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 33 خاندان ایسے ہیں جو ا سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ا سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33 خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عوام کو۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور بہتری کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ کمپنیوں کی کارکردگی، بروکرز کی نیت اور افواہیں‘ اس وقت ان تینوں پہلوؤں میں بہتری نظر آرہی ہے۔ جب تک پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں آ رہی تھیں تو کمپنیوں کے شیئرز کی ڈیفالٹ پرائسنگ ہو رہی تھی۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اب ڈیفالٹ پرائسنگ نہیں ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ا سٹاک ایکسچینج میں بہتری انتظامی طور پر مانیٹرنگ کی وجہ سے آئی ہے‘ غیر حقیقی اتار چڑھاؤ نہیں ہے‘ ڈالر ریٹ میں استحکام کی وجہ سے بھی اسٹاک بہتر ہو رہا ہے‘ بلیک منی ا سٹاک میں انویسٹ ہو رہی ہے‘ گو کہ بلیک منی سے ا سٹاک میں ٹریڈ کرنے کے کافی راستے بند ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی اچھی خاصی گنجائش موجود ہے‘صرف ڈھائی لاکھ لوگ ا سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں‘ اس لیے پاکستان میں ا سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسٹاک ایکسچینج میں منافع بڑھنے سے مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتی ہے۔ جب ایلیٹ کلاس کے منافع بڑھتے ہیں تو ان کی خریداری کی طاقت بھی بڑھتی ہے، جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ محمد شاہد نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے اوپر جانے یا نیچے آنے سے ملکی معیشت کی بہتری کا پتا نہیں چلتا ہے بس دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ لانے کے لیے اسٹاک ایکسچینج کو ایک سمبل بنا لیا ہے کہ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج بہت اوپر جا رہی ہے تو پاکستان ترقی کر رہا ہے اور ملکی معیشت میں بہتری آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ بنیادی معیشت کا بیرومیٹر نہیں ہے، حقیقی جی ڈی پی نمو ایک بہتر اشارہ ہے، اور اس کے اندر، ترقی کا معیار اہم ہے، اس سے مجموعی روزگار اور چھوٹے کاروبار کی ترقی کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ترقی غائب ہے، صارفین کے صوابدیدی اخراجات تیزی سے سکڑ رہے ہیں، اور حقیقی معیشت میں سرمایہ کاروںکا اعتماد کم ہوا ہے. گزشتہ سال 0.2 فیصد سکڑنے کے بعد اس سال عارضی جی ڈی پی نمو 2.38 فیصد ہے۔صارفین کے صوابدیدی اخراجات تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ بہت سے گھرانوں کے پاس بنیادی اخراجات کو پورا کرنے کے بعد خرچ کرنے کے لئے بہت کم بچتا ہے کیونکہ اصل ڈسپوزایبل آمدنی ختم ہو رہی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہے۔