ڈپلومہ ہولڈر ز ملازمین کی ترقی کا کوٹہ 10فیصد سے بڑھاکر 20 فیصد ، جی ایس او ملازمین کو رسک الائونس دیا اور شفٹ الائونس بڑھا یا جائے، حیسکو ہیڈ کوارٹر الائونس 6ہزار سے بڑھاکر12ہزار کیا جائے، پنشنرز کی سہولت کے لیے ٹھٹھہ، بدین اور ٹنڈو محمد خان میں اکائونٹ کھولے جائیں، ایک لاکھ خالی جگہوں پر ملازمین اور ان کے بچوں کی بھرتیاں کی جائیں ، پارٹ ٹائم سینٹری ورکرز جن کو ماہانہ الائونس 37ہزار یونین نے کرایا ان کی بھرتیاں فوری کی جائیں، ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی زیر التواء ادائیگیاں یقینی بنائی جائیں، وزیر اعظم پیکیج کی منظور کردہ مراعات کے تعطل کو ختم کیا جائے، دل کے مریض کی طرح کینسر کے امراض میں مبتلا ملازمین کو بھی پیشگی ادائیگیاں کی جائیں، پیپکو ہیلتھ پالیسی کے تحت حیدرآباد میں واپڈا اسپتال کے علاوہ CMH اور سٹی اسپتال کو پینل پر کیا جائے، LOE ، شوکاز اور نوکری سے برخاست کرنے کا غیر قانونی سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ بناء کسی انکوائری ایسا کرنا خلاف قانون ہے ، سروس بکس کی تکمیل ، بیوہ فنڈز کے واجبات جاری کیے جائیں اگر ان جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو عدم منظوری پر حیسکو ہیڈ کوارٹرز پر احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین سی بی اے کے مرکزی صدر عبداللطیف نظامانی نے لیبر ہال حیدرآباد میں یونین کے تیسرے تنظیمی و کارکردگی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں حیسکو کے تمام ونگز جی ایس او، جی ایس سی ، آپریشن ، ایم اینڈ ٹی، اسٹور، کنسٹرکشن، سول، آڈٹ، فنانس، ہیڈ آفس، NTDC ، واٹر ونگز ، کوٹری جامشورو پاور ہائوسسز کے عہدیداران نے بھرپور شرکت کی۔ یونین کے صوبائی جنرل سیکرٹری اقبال احمد خان نے تنظیمی اغراض و مقاصد اور یونین کی کارکردگی پر مفصل آگہی فراہم کی۔ اس موقع پر یونین کے صوبائی جوائنٹ سیکرٹری اعظم خان، صوبائی میڈیا کوآرڈنیٹر محمد حنیف خان، شعبہ خواتین کی چیئرمین پرسن ثروت جہاں، قراۃ العین صفدر، ناہید اختر، الادین قائمخانی، نور احمد نظامانی، حامد قائمخانی کے علاوہ ریجنل، زونل، ڈویژنل، سب ڈویژن نمائندگان نور احمد سومرو ، سمیع خان، عابد شاہ، ملک روشن، ساجد اللہ راجپوت، سید وقاص احمد، مہر اللہ خان، اکرم خان، ریاض چانڈیو، مرتضیٰ عباسی، امتیاز شاہ، سراج بیگ، بھی اجلاس میں موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر یونین نے مزید کہا کہ حکومت کی دوغلی حکمت عملی کے باعث ادارہ تباہ ہورہا ہے، حکومت نے اپنے پاور ہائوسوں کو گیس اور آئل کی روانی کو بند کرکے انہیں بند کردیا اور اس کے بدلے 90 نجی بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خرید کر عوام کو مہنگے داموں بجلی فروخت کررہی ہے جس کی وجہ سے بجلی عوام کی دسترس سے باہر اور چوری کا سبب بن رہی ہے عوام بجلی کا بل بھرنا چاہتی ہے مگر قوت خرید سے زائد، ناجائز ڈیڈکشن بلز عوام کی دسترس سے بلز باہر ہوچکے ہیں۔ لہٰذا بجلی کو سستی کیے بناء ادارہ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ حکومت نے ایک جانب بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو تباہ کیا تو دوسری جانب وہ منافع بخش کمپنی NTDC کو بھی تین حصوں میں تقسیم کر کے اس کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرکے نقصان پہنچانا چاہتی ہے، انہوں نے بند جینکوز پاور ہائوسز کے ملازمین جو سرپلس کیے جارہے ہیں ان کو اسی اسکیل اور کیڈرز میں بحال رکھا جائے اور ان کے بارے میں جلد بہتر فیصلہ کیا جائے تاکہ ان کی تنخواہ اور پنشن جاری ہوسکیں اور انہوں نے بتایا کہ اس تیسرے ماہانہ اجلاس کے ذریعے جہاں ایک جانب ہمیں مسائل سے آگہی، تجاویز اور تدارک کی جانب پیش قدمی اور عملی حل سامنے آرہا ہے وہیں دوسری جانب ہمیں مل بیٹھنے اور تنظیمی اغراض و مقاصد کا بھی پتہ چل رہا ہے۔