غزہ میں نومولود بچوں کی اموات

183

جنوبی غزہ کے ساحل پر ایک خیمے میں نریمان اور ان کے شوہر محمود فسیح اپنے دو بچوں، چار سالہ رایان اور ڈھائی سالہ نہاد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے مطابق 14 ماہ سے جاری جنگ کے دوران وہ 10 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
سلا کی 20 دن کی زندگی کے دوران نریمان اور ان کے شوہر ایک چھوٹے سے علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں اسرائیلی فوج کے حکم کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی موجود ہیں۔ یہاں صفائی کا ناقص انتظام اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بارش اور سمندر کا پانی جمع ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ سیلاب آ گیا ہے۔سلا کے والد محمود نے بتایا کہ ’سردی بہت شدید ہے۔ اسی لیے پوری رات ہم ایک دوسرے سے جڑ کر گزارتے ہیں۔ ہمارے زندگی جہنم ہے۔ اور یہ سب اس جنگ کے اثرات ہیں۔ میرا خاندان شہید ہو گیا، ہماری صورت حال اب ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔‘

اس علاقے میں عام فلسطینیوں کو منتقل ہونے کے حکم کے باوجود اسرائیلی فوج نے متعدد بار اسے بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ سلا کے علاوہ دو ہفتوں کے دوران غزہ میں ہائپوتھرمیا، یعنی درجہ حرارت میں کمی، کے باعث چھ نومولود بچے وفات پا چکے ہیں کیوں کہ درجہ حرارت رات کے وقت سات ڈگری تک گر جاتا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق موسمی حالات کی وجہ سے ہزاروں خیموں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ غزہ میں خوراک اور دیگر اشیا کی فراہمی پر اسرائیل نے قدغنیں لگا رکھی ہیں جس کی وجہ سے انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

وسطی غزہ میں الاقصی مسجد کے باہر بی بی سی کے لیے ہی کام کرنے والے ایک اور کیمرہ مین کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنھوں نے اپنا مردہ بچہ اٹھا رکھا تھا۔ سلا کی طرح یہ بچہ صرف 20 دن کا تھا اور سردی کی وجہ سے اس کا رنگ نیلا ہو چکا تھا۔خاتون نے کہا اس کو چھو کر دیکھو، یہ سردی سے جم چکا ہے۔ ہم آٹھ لوگوں کے پاس چار رضائیاں بھی نہیں ہیں۔ میں کیا کروں؟ میرے بچے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں۔‘