وقت کی پکار،اسلامی انقلاب

224

میں: میرے خیال سے آج اسی موضوع پر بات ہونی چاہیے جس کا ذکرگزشتہ نشست میں برسبیل تذکرہ ہوا تھا۔ یعنی اسلامی انقلاب کی توانا آواز وقت کی پکار کیوں نہیں بن سکی؟

وہ: میری دانست میں جسے تم توانا آواز کہہ رہے ہو، وہ کم ازکم پاکستان میں تو آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی دور میں اس توانائی سے محروم رہی جو ایک آواز کو للکار بننے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ شاید سڑکوں اور چوراہوں پر تو اس کی بڑی گھن گرج سنائی دی لیکن حقیقی اور عملی بنیادوں پر ایسا ہوتا شاذ ونادر ہی نظر آیا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ، محض ایک نعرہ ہی رہا جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس نعرے کے پروردہ افراد نے شاید اسے ایک انقلابی گروہ یا جتھا بنانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ کیوں کہ انقلاب کسی وقتی جوش و جذبے کا نام نہیں ایک مستقل اور مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے۔

میں: لیکن مسلسل کوشش تو برسوں سے جاری ہے؟

وہ: ہاں یقینا ایسا ہی ہے لیکن اس جدوجہد اور کوشش کے پس پردہ جو انقلابی فکر اور سوچ مطلوب ہوتی ہے وہ خال خال ہی منظر پر نمودار ہوئی، ورنہ زیادہ مواقع پر تو مصلحت کوشی ہی مطمح نظر ٹھیری۔ ساری جستجو اور محنت ایک ایسے نام نہاد جمہوری نظام کو بچانے اور اس کا دست راست بننے ہی میں لگادی جس پر آزادی کے اولین برسوں کے بعد سے اب تک کسی بھی دور میں جمہوریت کا شائبہ بھی نہیں گزرا۔ اور اس پر ستم یہ ہوا کہ اسلامی انقلاب کے داعی کبھی فریب ِ آمریت کا شکار ہوئے تو کبھی بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کا ساتھ دینے کی ایک غیر منطقی دلیل کا دفاع کرتے رہے۔ اس موقع پر اقبال کی مشہور نظم شمع وشاعر کا یہ شعر یاد آگیا۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

میں: تمہارے اس تجزیے کو یکسر رد نہیں کررہا لیکن کسی ایک جماعت پر سارا ملبہ ڈال کر ہم بحیثیت مجموعی اس ذمے داری سے بری نہیں ہوسکتے۔ اس تناظر میں کچھ اور عوامل بھی ہیں جن پر گفتگو ہونا ضروری ہے۔ میری رائے میں قیام پاکستان بیسویں صدی کا سب سے بڑا انقلاب تھا۔ تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر جب جغرافیائی سرحدوں کی بنیاد پر ملکوں کی تقسیم کے نقشے کھینچے جارہے تھے، اس اصول کے برعکس برصغیر کے دو علٰیحدہ زمینی خطوں کی صرف ایک کلمے، ایک نظریے کی بنیاد پر یکجائی کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان پر مبنی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے کہ تم اسے مبالغہ سمجھو لیکن اس میںکوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ سو فی صد اسلامی انقلاب تھا۔ بس المیہ یہ رہا کہ اس کے علم بردار انقلابی یا انقلاب پسند نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بنیادی تعمیر نو کا عمل آج تک شروع نہیں ہوسکا جو ملک میں سیاسی نظام اور حکومتی نظم و نسق میں یکسر تبدیلی کا موجب ٹھیرتا۔

وہ: میرے خیال سے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قیام پاکستان کسی انقلابی گروہ یا انقلابی تحریک کا مرہون منت نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی عمل اور جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ ہاں مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کے وقت پاکستان میں انقلاب کی دستک تو ضرور ہوئی تھی لیکن وہ شاید قوم کی سماعتوں تک نہیں پہنچی یا اس ریاست کو ہائی جیک کرنے والے کرتا دھرتائوں نے پہنچنے نہیں دی اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی مفاد پرست شاطر ٹولے نے نظریۂ پاکستان اور لا الہ الا اللہ کی صدائوں کو چند دستاویزات میں بند کرکے سربمہر کردیا۔ موقع محل کی مناسبت اور عوام کی نفسیات کو بھانپتے ہوئے جب ضرورت پڑی تو اللہ کے نام پہ کبھی ایک بیانیہ ترتیب دے لیا تو کبھی مجبوراً اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کرکے کوئی قانونی دستاویز بناڈالی۔

اسلامی انقلاب کی سوچ کے حوالے سے یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ برس ہا برس کی ملوکیت اور حالیہ چند صدیوں سے مسلط سرمایہ دارانہ نظام نے مسلمانوں کے ذہن سے اسلام کی اصل روح اور مسلمان ہونے کے لازمی تقاضوں کو کلی طور پر محو کردیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام محض لائف انشورنس کی پالیسی سے زیادہ کچھ نہیں رہ گیا چند مخصوص ارکان اور عبادات وفرائض کی ادائیگی کے صلے میں مرنے کے بعد جنت کی ضمانت اور جہنم سے نجات اللہ اللہ خیر سلاّ۔ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے طفیل قرآن کا نسخہ ٔ کیمیا ہونا، ایک مکمل نظام حیات اور پوری انسانیت کے لیے ذریعہ ٔ نجات ہونے کا تصور ایک علمی بحث تو ضرور بنا مگر بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے دل میں یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکی کہ ’یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے‘۔ کچھ اسی کیفیت کو قراۃُ العین حیدر نے اردو کے سب سے بڑے اور شاہکار ناول ’آگ کا دریا‘ میں دو کرداروں کے باہم مکالموں میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے ’’اصل سوال یہ ہے کہ تم حقیقت سے کس حد تک سمجھوتا کرنے پر تیار ہوتے ہو۔ تمہاری اصل بڑائی یا گھٹیا پن اس وقت ظاہر ہوگا کہ تم نے حقیقت سے یعنی بے ایمانی سے، جھوٹ سے، ریاکاری اور اخلاقی جرم سے کس حد تک سمجھوتا کیا‘‘۔

میں: اس حوالے سے عالمی استعمار اور اس کے ایجنڈے کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے، پاکستان میں تو خیر ایسی کوئی لہر کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی کیوں کہ یہاںکیا سرخ اور کیا سبز، انقلاب کے تمام ہی دعویداروں نے اپنی عافیت بچہ جمہورا بنے رہنے میں ہی جانی اور اگر کسی موقع پر اس کا شائبہ بھی گزرا تو استعمار کے مقامی ایجنٹوں نے بحسن وخوبی اپنا کردار نبھایا۔ اور گلے سڑے نظام کی بوسیدہ دیواروں کو گرانے کی موہوم سی کوشش کرنے والے ایسے تمام ذمہ داروں کو نقض ِ امن کا مجرم ٹھیراتے ہوئے بآسانی دیوار سے لگادیا گیا۔ رہی بات دنیا کے دیگر خطوں کی تو اس استعمار نے نوے کی دہائی میں الجزائر کی اسلامی فرنٹ اور ماضی قریب میں مصر کی اخوان المسلمون کے جھنڈے تلے جمہوری طریقہ کار کے مطابق حکومتوں میں آنے والے اسلام پسندوں کو بھی قبول نہیں کیا، تو کسی ملک میں کوئی بھی انقلابی جدوجہد کیسے پنپ سکتی ہے۔ جہاں تک معاملہ ایران اور افغانستان کا ہے تو ان دونوں ممالک کی مثالیں اسلامی انقلاب کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔ لیکن یہ سوال ابھی بھی وہیں موجود ہے کہ کیا مستقبل قریب میں اسلامی انقلاب وقت کی پکار بن سکتا ہے؟

وہ: ویسے کہیں کہیںکچھ چنگاریاں اٹھنا تو شروع ہوئی ہیں، میرے خیال سے اسلامی انقلاب اس وقت پاکستان ہی کیا پوری دنیا کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے، بس دو محاذوں پر ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا محاذ اُن داعیان ِ انقلاب کا ہے جنہیں اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے جزیات پر کسی علٰیحدہ نشست میں تفصیل سے بات کریں گے۔ اس حوالے سے دوسرا محاذ شاید زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو کہ خاص وعام ہر مسلمان سے براہِ راست جڑا ہوا ہے اور ہر ایک کے ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ تم نے اللہ کے رسولؐ کی وہ مشہور حدیث ضرور سنی ہوگی، جس میں برائی کو محض دل میں برا جاننے کو ایمان کا کمزور ترین درجہ شمار کیا گیا ہے۔ افسوس کہ دنیا کے ۹۰ فی صد مسلمان ایمان کے اسی درجے پر زندگی گزار رہے ہیں اور بعضے تو شاید سے اس سے بھی نیچے ہیں۔ برائی کو زبان سے برا کہنے والے بھی اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یار کیا فائدہ ہمارے اس احتجاج اور شورو غل پر اب تک کیا ہوا ہے جو آگے کچھ ہوگا۔ لہٰذا وقت کی آواز یہی ہے کہ ہر مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہر برائی ہر ظلم کو بزور بازو روکا جائے اور اپنے اپنے سماج میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھ کردنیا کا ہر مسلمان ایمان کے پہلے درجے پر فائز ہوجائے۔ گفتگو کے اختتام پر ایک اور فی البدیہہ ِ قطعہ سنتے جائے۔

زیست کی آب و تاب کی بنیاد
ڈھے گئی ہر سراب کی بنیاد
حکمِ معروف، برائی کی نفی
ہے یہی انقلاب کی بنیاد