اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق

238

ہماری پڑھی لکھی سوسائٹی میں ایک سوال اسلامی جمعیت طلبہ سے آپ کا کیا تعلق ہے یا رہا ہے، ہر اس شخص سے پوچھا جاتا ہے، جو تھوڑا بہت بھی جمعیت کے قریب ہو یا دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اُخروی کامیابی کی بات بھی کرے۔ یا اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ایمانداری و دیانت داری میں دوسروں سے آگے ہو۔ یا پھر اللہ ربّ العزت نے اس کا بھرم معاشرے کے نیک لوگوں میں رکھا ہوا ہو اور یا پھر اچھی گفتگو یا تقریر کر لیتا ہو۔ راقم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہے جس سے کبھی کبھار کوئی نہ کوئی یہ سوال کر ہی لیتا ہے تو میرا جواب ہوتا ہے تن من دھن کا۔

آج معاشرے میں جو تھوڑا بہت بھرم اللہ ربّ العزت نے قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور البدر کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے۔ بنگلا دیش جب سے پاکستان سے علٰیحدہ ہوا ہے، وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کی قربانیوں کی داستانیں سنتے پڑھتے ہی چلے آ رہے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میں کراچی اور پنجاب یونیورسٹی میں بیش تر بنگالی طلبہ سے رابطہ رہا، پھر بنگلا دیش سے آئے ہوئے وفود کی مرکز جمعیت و البدر میں خدمت کا موقع بھی ملا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اب تحریک اسلامی کے لوگوں کو ترکی سے زیادہ بنگلا دیش اور انڈیا کی تحریک اسلامی کو اسٹڈی کرنا چاہیے ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا زیادہ وقت زیادہ سرمایہ اپنی دعوتی سرگرمیوں پر خرچ کرتے ہیں، گراس روٹ پر مضبوط ہیں، مرکزی قیادت سے لے کر عام کارکن کی سطح پر ایک ایسے رشتے میں پروئے ہوئے ہیں جس میں کوئی کھوٹ کوئی ملاوٹ کوئی حرص و لالچ کوئی اونچ نیچ نہیں۔ جنہوں نے جدت کو اپنایا ہے، اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے نا کہ اس کے بہائو میں بہنے کے لیے۔

فیس بک پر حافظ عزیر علی خان کی ایک پوسٹ پڑھنے کو ملی۔ مجھے تو اپنے دور کی جمعیت یاد آ گئی ایسے ہی خیالات برادر اظہار الحق (سابق ناظم اعلیٰ) کے ہوا کرتے تھے، اپنے کارکنان کو ایسے ہی سانچے میں ڈھلنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آپ کے مطالعہ کے لیے من و عن ان کی تحریر حاضر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔

اسلامی چھاترا شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) بنگلا دیش کے نومنتخب ناظم اعلیٰ جاہد الاسلام بھائی اجتماع ارکان سے فراغت کے بعد بیرون ملک سے آئے مہمانوں سے ملاقات کے لیے ہوٹل تشریف لائے۔ شبر کے کام کے حوالے سے بتایا کہ: شبر کے اس وقت چھے ہزار سے زائد ارکان ہیں۔ آئندہ دس دن کے بعد تنظیمی سازی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ اس دورے میں شبر کے کام کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ: شبر میں اطاعت نظم مثالی ہے جوکہ تنظیم کا خاصہ ہے۔ دوسرا یہ کہ شبر میں سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ دعوتی، تربیتی شعبوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ لٹریچر ایک ایک رکن نے گھول کر پیا ہوا ہے۔ بالائی نظم سے ذیلی نظم تک سے گفتگو کرکے محسوس ہوا کہ تعلیمی میدان میں بہت آگے ہیں۔ سوشل سائنس پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ مرکزی نظم میں نوے فی صد لوگ سوشل سائنس کے طالب علم اور کچھ ڈاکٹرز اور انجینئرز تھے۔ سوشل سائنس بھی صرف پاس ہونے کے لیے نہیں بلکہ اپنے شعبے کے حوالے مکمل آگاہ خود محترم ناظم صاحب انگلش لٹریچر میں دوسرا ماسٹرز کررہے ہیں۔

نماز اور نفلی عبادات کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ پبلیکشن ڈیپارٹمنٹ بہت زیادہ متحرک ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر پیپرز شائع کیے جاتے ہیں۔ بچوں کا رسالہ اور کتابیں۔ چودہ سال کے بعد دفتر کھلا ہے۔ یہ کام پہلے دفتر کے بغیر سرانجام دیے جارہے تھے۔ ہیومن ریسورس کا شعبہ پروفیشنلز تیار کررہا ہے۔

اس وقت شبر سے فارغ کئی لوگ مختلف جامعات میں لیکچرر ہیں۔ فراغت کے بعد جماعت میں شامل ہونے کا معاملہ تقریباً سو فی صد ہے۔ ہر ساتھی کی دو اور کچھ کے کئی نام بھی ہیں ظالم حسینہ واجد کے مشکل دور میں مصلحتاً یہ کام کیا گیا۔ ایک ساتھی بتا رہے تھے کہ ان کے دوست کے گیارہ مختلف نام رکھے گئے ہیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں عام طلبہ سے مل کر یہ بات بھی جاننے کی کوشش کی کہ حالیہ تبدیلی میں شبر کا کیا کردار تھا؟ تقریباً سب کی یہی رائے تھی کہ یہ تحریک شبر نے برپا کی، بیک ہینڈ پر پورا سپورٹ کیا اگر چہ ذیلی قیادت سے کچھ لوگ ڈائریکٹ بھی سامنے تھے لیکن عام طالب علموں کو سامنے رکھا اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرکے اسٹیج بھی دیا جو کہ کامیابی کی وجہ بھی بنی۔ اللہ تعالیٰ اس تبدیلی کو تادیر قائم رکھے، ہمارے بھائیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور انہیں استقامت عطا فرمائے۔ آمین