طلبہ یونین کی بحالی۔ جمہوری مستقبل کی ضرورت

245

حالیہ دنوں میں طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ ایک بار پھر نمایاں ہوگیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ پہلے اسکول لیڈرز ہوتے تھے، ایک نئی نسل نیچے سے سیاست میں آرہی تھی، طلبہ یونینز پر پابندی نے مصنوعی قیادت کو فروغ، اور تعلیمی اداروں میں مسائل کو بڑھاوا دیا ہے۔ دنیا میں طلبہ یونین کی تاریخ خاصی قدیم ہے اور یہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، اور معاشرتی و سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کا آغاز 1600ء اور 1700ء کی دہائی میں یورپ کی یونیورسٹیوں بولونیا اور ایڈنبرا یونیورسٹی سے ہوا جہاں طلبہ تنظیمیں طلبہ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم ہونے کا موقع دیتی تھیں۔ ان تنظیموں نے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے، فیسوں کے مسائل، اور انتظامیہ کی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ پھر بعد میں یورپ اور امریکا میں ان تنظیموں نے تعلیمی پالیسیوں پر اثر ڈالنے، طلبہ کی فلاح کے منصوبے متعارف کرانے، اور سماجی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی تبدیلیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران طلبہ تنظیموں نے امن تحریکوں میں حصہ لیا، اور آزادی کی تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا۔ طلبہ تنظیموں کا قیام پاکستان میں بھی سب سے اہم کردار رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں طلبہ تنظیمیں مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ پاکستان میں طلبہ یونین کی تاریخ ملک کی سیاسی و تعلیمی تاریخ کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ یہ یونینز ہمیشہ طلبہ کے حقوق کی ترجمان، تعلیمی اداروں میں جمہوری روایات کو ترویج دینے والی، اور قومی قیادت کی نرسری ثابت ہوئی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے 1970ء کی دہائی تک طلبہ یونینز نے سیاسی تحریکوں میں انقلابی کردار ادا کیا۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ 1968ء میں راولپنڈی میں طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپوں نے ایک ملک گیر تحریک کو جنم دیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کے طلبہ مغربی پاکستانی طلبہ کے ساتھ حکومت کے خلاف تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں منظم طریقے سے طلبہ یونینز کو دبایا گیا، اور بدقسمتی سے 1984ء میں مارشل لا کے دوران طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی، لیکن بعد میں جمہوری حکومتوں نے جو خود کسی اور کے بل بوتے پر قائم ہوتی رہی ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد طلبہ یونین کی بحالی کے لیے مؤثر قانون سازی کا کوئی اقدام نہیں کیا۔ انہوں نے بھی آمریت کے فیصلے کو برقرار ہی رکھا ہے۔ کتاب ’’سورج پر کمند‘‘ این ایس ایف کی کتھا ہے، اس میں مشہور صحافی محمود شام نے ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے لکھا کہ ’’دنیا کے فیصلے واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کے فیصلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں طے پاتے ہیں‘‘۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہماری عدلیہ کا کردار بھی غیر جمہوری رہا ہے، یکم جولائی 1992ء کو عدالت عظمیٰ کے عبوری حکم نے طلبہ سیاست کو مزید نقصان پہنچایا، جس کے تحت تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت طلبہ اور اُن کے والدین کو یہ حلف دینا ہوتا کہ طلبہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ 1993ء میں عدالت عظمیٰ نے طلبہ یونینز پر مکمل پابندی عائد کردی۔ طلبہ یونینز جمہوری تربیت کی بنیاد ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف طلبہ کی آواز بن کر اُن کے مسائل اجاگر کرتے ہیں بلکہ قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بھی ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں منظور شدہ ”Sindh Students Union Act” کا ذکر اہم ہے، جس کے تحت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کو یقینی بنایا جانا تھا، لیکن بدقسمتی سے دو سال سے زائد عرصے کے باوجود یہ قانون عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ اس وقت جبکہ عالمی طلبہ تنظیمیں مظلوم اقوام کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں، پاکستان میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں اور ان کی نمائندگی بدستور پابندیوں کی زد میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی حکومتیں طلبہ یونینز سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ طلبہ یونینز جمہوری نظام کی بنیادی اینٹ ہیں، جہاں نوجوان قیادت قومی اور بین الاقوامی مسائل پر کھل کر بحث و مباحثہ کرتی ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ کے 24 اکتوبر 2024ء کے فیصلے کے باوجود طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جا سکا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت دیے گئے یونین سازی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ یونینز پر پابندی نے تعلیمی اداروں کو تنازعات، گروپ بندی اور جمہوری عمل کی کمی جیسے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان میں یہ وقت کی ضرورت ہے کہ طلبہ کو دوبارہ طلبہ سیاست میں شامل کیا جائے۔ یہ پابندی صرف جمہوریت اور سیاست دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے لگائی گئی، تاکہ نوجوانوں کو سماجی اور سیاسی شعور سے محروم رکھا جا سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستان کا تعلیمی نظام صرف نوکری پیشہ افراد پیدا کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے اور ملک حقیقی قیادت سے محروم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ یونین کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو فوری طور پر عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے طلبہ یونینز کو بحال کرنا چاہیے۔ اس فیصلے سے ایک باشعور، جمہوری اور پُرامن معاشرہ تشکیل پانے میں مدد ملے گی، جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔