غزل بہت مقبول صنف ہے، ایک شعر میں پورا مضمون سما سکتا ہے

169
ڈاکٹرمسرور پیرزادو کی گفتگو

ملک میں ادب اور شاعری سے گھر کے اخراجات نہیں چلتے۔ اس کے لیے ادیب اور شاعر کو کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے
ڈاکٹرمسرور پیرزادو کا کہنا ہے کہ سندھی میں ان چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ اردو میں انشاء اللہ اگلے سال مجموعہ آجائے گا۔شاعری کے علاوہ میں وٹرنری ڈاکٹر ہوں اور کراچی میں ہی ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت کر رہا ہوں۔ملک میں ادب کی صورتحال اچھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سو فیصد تو مطمئن نہیں ہوں لیکن کافی ادیب اور شعرا بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ہمارے ملک میں ادب اور شاعری سے گھر کے اخراجات نہیں چلتے۔ اس کے لیے ادیب اور شاعر کو کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے۔ پھر وہ آمدنی کے لیے کوئی نوکری یا کاروبار کرتا ہے۔۔ میں بھی سرکاری ملازم ہوں۔۔ ملازمت کی وجہ سے ادیب اپنے ادب کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتا۔
باقی ادب یا کوئی بھی آرٹ ایک شوق اور جذبہ ہے جو پیسے کے بغیر بھی زندہ رہتا ہے۔۔حکومت کی ترجیحات میں ادب نہیں ہے۔۔ حکومت کے ہاں اس کی اہمیت فقط تفریح کی ہے۔۔ اور محکمہ ثقافت یا کچھ ادارے تھوڑا بہت کام کر رہے ہیں۔۔ لیکن ادب اور آرٹ پہ زیادہ کام اور توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو آپ کا امیج دیگر ممالک میں بہتر کر سکتی ہے۔ہر شاعر کا الگ مزاج ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔۔ کسی کا مزاج اگر غزل والا ہے تو اس کو خوامخواہ نظم لکھنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔۔ اسی طرح باقی اصناف کے لیے بھی کہوں گا۔۔ اس وقت غزل بہت مقبول صنف ہے اور اس کا ایک شعر اپنے اندر پورا مضمون سما سکتا ہے۔۔ لیکن نظم کے شعرا بھی بہت خوب لکھ رہے ہیں۔۔
کتب بینی شروع سے ہی ہمارے ملک میں زیادہ اطمینان بخش نہیں رہی۔ اب بھی وہی صورتحال ہے۔۔ اوپر سے انٹرنیٹ اور موبائل فون نے لوگوں کو کتاب سے کچھ دور بھی کیا ہے۔۔ لیکن کتاب پڑھنے والے اب بھی ہیں۔۔ کتاب کا چھپنا دراصل اس کی دلیل ہے کہ کتاب پڑھی جارہی ہے علم کا شوق پہلے بھی کوئی زیادہ نہیں تھا اوپر سے انٹرنیٹ اور موبائل فون نے اس کو کچھ مزید نقصان بھی پہنچایا ہے۔۔ لیکن علم تو ہر جگہ ہے۔۔ اگر کسی شخص میں علم کی پیاس ہے تو وہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سے بھی وہ پوری کر سکتا ہے۔۔ اب علم کے لیے فقط کتاب ہی ضروری نہیں ہے۔۔ جدید دور میں علم کے حصول کے لیے زیادہ ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔