سکون سے رہنے دو

303

اے ابن آدم آپ نے اگر 1948ء سے 1970ء تک کا کراچی دیکھا ہو تو آپ کے علم میں ہوگا کہ یہ شہر جنت کی نظیر ہوا کرتا تھا۔ صبح سویرے روڈوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا، کچرا نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ یہاں محبتیں پروان چڑھتی تھیں اور رواداری کا ماحول تھا، یہاں کے لوگ نہایت ایماندار، دیانت دار، مخلص ہوتے تھے، یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں آگئے تھے جن کو مہاجر کہتے ہیں ان لوگوں کو آزادی کی قدر تھی کیونکہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ کراچی کے رہنے والے ایک دوسرے کے غم و خوشی میں بندھے ہوئے تھے۔ نفرت، بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ، بدمعاشی نام کو بھی نہیں تھی، ہر شخص محنت مشقت کرکے رزق حلال کمانے کو ترجیح دیتا تھا۔ کوئی بھی کمائی کے شارٹ کٹ راستے نہیں ڈھونڈتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں سانجھی ہوتے تھے اور جب یہاں لوگ اچھے نیک ایماندار اور پاکباز تھے تو اللہ نے ان کے لیے اس شہر کا موسم بھی ویسا ہی بنایا ہوا تھا یعنی یہاں کا موسم بھی ویسا ہی بنایا ہوا تھا یہاں کا موسم بارہ مہینے خوشگوار اور معتدل رہا کرتا تھا۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں بھی بہار کا موسم ہوتا تھا۔ جنرل محمد ایوب خان کو عوام نے اقتدار سے ہٹایا پھر یحییٰ خان نے ملک کا بیڑا غرق کرنا شروع کردیا۔

کراچی ایک پرامن شہر تھا یہ رسول اللہؐ کے عاشقوں کا شہر تھا۔ میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر یہ بات لکھ رہا ہوں جبکہ انہوں نے 10 سال حکومت کی اقتدار کی خاطر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ غداری کی سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی کچھ اچھا نہیں کیا مگر آج جو ترقی پاکستان میں نظر آتی ہے وہ ان کے دور کی ہیں۔ افسوس کہ اُن کے بعد سے ہم ایک کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے، اُس دور میں کراچی کی سیاست مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، سید منور حسین صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ کراچی والوں کے یہی لوگ لیڈر تھے اس کے بعد قائد عوام نے آکر جو کام شروع کیے اُس کی تباہی کے اثرات آج تک قائم ہیں، سندھ کارڈ کو استعمال کرکے لیڈر بننے والے قائد عوام نے سندھ میں کوٹا سسٹم کی بنیاد ڈالی، باقی صوبوں میں انہوں نے یہ عمل نہیں کیا کچھ اچھے کاموں میں ایک بڑا کام قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا، باقی سیاست انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں لگا کر رکھی۔ 1973ء کا آئین بھی اُن کے دور حکومت میں منظور ہوا مگر یہ اکیلا اُن کا کارنامہ نہیں تھا، ملک کی سب جماعتیں اس میں شامل تھیں مگر افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر حاکم نے اپنے دور اقتدار میں آئین میں اپنی مرضی سے ترمیم کی لسانیت اور فرقہ واریت بھٹو صاحب اور ضیا الحق کے دور حکومت میں پروان چڑھی، پھر برسوں کبھی بے نظیر تو کبھی میاں نواز شریف نے اس ملک پر حکومت کی۔ بگاڑ روز بروز بڑھتا گیا پھر مشرف صاحب کا دور شروع ہوا تو کراچی پر توجہ دی گئی، ایم کیو ایم کا دور ایک پر آشوب دور تھا کراچی میں گولیوں، لاشوں کا دور تھا وہ وقت بھی گزر گیا اس دور کے کچھ سیاسی لیڈروں اور کارکنوں نے سبق حاصل کیا کچھ نے کنارہ کشی اختیار کرلی، کچھ نے دین کی طرف رجوع کیا اور کچھ مفاد پرستوں نے نقاب بدل کر پھر عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

کاش الطاف حسین تشدد کی سیاست نہیں کرتے تو آج کراچی کا یہ حال نہیں ہوتا مگر ایک حقیقت جو میں لکھ رہا ہوں بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے گی کہ آج بھی کراچی کا ایک بڑا حلقہ الطاف حسین کے ایک اشارے کا منتظر نظر آتا ہے۔ الطاف حسین نے کبھی جاتی امرا یا 70 کلفٹن پر حاضری نہیں دی بلکہ اُس وقت کے وزیراعظم خود چل کر 90 آتے تھے۔

خیر ہمارے ملک کی سیاست کا اصل محور تو اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی نے فتح حاصل کی مگر ضمیر بک گئے اور مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا میئر بنادیا گیا۔ قومی الیکشن کو کون بھول سکتا ہے تحریک انصاف نے بڑے بڑے لیڈروں کو گرا دیا اور بھاری اکثریت سے الیکشن جیت چکے تھے مگر دنیا نے دیکھا کہ جو ہار گئے وہ حکومت کررہے ہیں جو جیت گئے وہ جیلوں میں ہیں۔ جنرل (ر) باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے کسی جنرل نے ملک کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ جنرل باجوہ نے قوم کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ بیان جھوٹا ثابت ہوا تمام سیاسی جوڑ توڑ میں ان دونوں کا کردار مرکزی تھا۔ جنرل باجوہ 10 سال تک آرمی چیف بننے کا خواب دیکھ رہے تھے دوسری طرف فیض حمید آرمی چیف بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کاش ہمارے ملک میں انصاف ہوتا کسی جنرل کی یہ مجال نہیں ہوتی اگر آپ سیاسی جماعتوں کے سیاسی منشور کو دیکھیں تو آپ کو معلوم چلے گا کہ سیاسی منشور صرف دکھانے کا ہوتا ہے اقتدار میں آنے کے بعد وہ منشور دفن ہوجاتا ہے۔ عمران خان نے بھی ریاست مدینہ کی بات کی مگر بنانے کی ہمت نہیں کی، صرف ایک جماعت جس کا نام جماعت اسلامی ہے اگر قوم نے اُس کو حکومت کرنے کا موقع دیا تو یہ ملک حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ بن سکتا ہے۔

کراچی میرا شہر ہے جو پیپلز پارٹی نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے اس وقت سوئی گیس والے نئی لائنیں بچھارہے ہیں ہزار کلو میٹر تک کھدائی کرنی ہے، آئی ایم ایف نے اس کام کے لیے امداد دی ہے مگر میری بات یاد رکھنا جس دن یہ کام پورا ہوگا ہزار کا بل 4 ہزار ہوجائے گا کیونکہ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ جو حکومت قرض لیتی ہے اسے غریب عوام کا خون چوس کر وصول کرتی ہے۔ محکمہ سوئی گیس ترقیاتی کام کرے مگر ساتھ ساتھ اُس کی تعمیر بھی کرے شہر تو پہلے ہی تباہ و برباد تھا سوئی گیس والوں نے اس تباہی میں اپنا حصہ شامل کردیا اس وقت کراچی کی حالت بے حد خراب ہوگئی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے کراچی میں کئی مقامات پر دھرنا دیا۔ دوسری طرف اہلسنت والجماعت نے بھی کراچی کے9 مقامات پر دھرنا دے دیا۔ عوام بے بس نظر آتے ہیں، سندھ حکومت نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا، تمام طبقات کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کام کریں نہیں تو کراچی کو وفاق کے حوالے کردیا جائے۔