سری نگر کے بجائے واخان ’’انار کلی ڈسکو چلی‘‘

361

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا دھواں پھیل ہی رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان خواہشوں، خیالوں اور خوابوں کے گھوڑوں کے سموں کی ٹاپوں نے ایک سماں سا باندھ دیا ہے کہ پاکستان کو واخان کی پٹی پر قبضہ کر لینا چاہیے۔ کئی ایک نے تو یہ نوید بھی سنا ڈلی کہ پاکستان نے واخان کی پٹی پر قبضہ کرلیا ہے۔ جس کے بعد اب پاکستان براہ راست تاجکستان کا ہمسایہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اب ہمیں وسط ایشیائی ریاستوں سے زمینی روابط کے لیے افغانستان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سے ملتی جلتی خواہشات کے اظہار کے دوران کئی ایسے نام بھی نمایاں طور پر سامنے آرہے ہیں جو زید حامد اور عبداللہ حمید گل کی صورت میں خود یا ان کے بزرگوار قوم کو یہ خواب دکھایا کرتے تھے کہ بہت جلد افغانستان سے ایسے لشکر نکلنے والے ہیں جو سری نگر کے قلعہ ہری پربت پر سبز پرچم لہرانے کے بعد لگے ہاتھوں دہلی میں بھارتی فوج سے دو دوہاتھ کریں گے جس کا نتیجہ لال قلعے پر سبز پرچم لہرانے کی صورت میں برآمد ہوگا مگر نجانے ایسا کیا ہوا کہ اب پاکستان کی فتوحات کا رخ مشرق کی سمت سے موڑ کر مغرب کی جانب کیا جانے لگا ہے۔ بھارتی فوج کا ایک مشہور ٹک ٹاکر میجر گورو آریا بھی اس سوچ پر یہ کہہ کر آوازیں کس رہا ہے کہ ’او بھائی تم کو تو ہمیں فتح کرنا تھا تم افغانستان کی جانب کیوں چل پڑے۔

سوشل میڈیا اور دانش کی دنیا کے جن جنگووئوں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کو سبق سکھانے کے لیے انہیں اب واخان کی پٹی پر قبضہ کر لینا چاہیے انہیں یہ بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی اصل ذمے داری فی الحقیقت واخان اور افغانستان میں فتح کے پھریرے لہرانا نہیں بلکہ سری نگر کی دنیا ہے۔ جہاں خواتین دہائیوں سے ایک گیت گاتی چلی آرہی تھیں ’’سبز دستار س نبی چھو راضی۔ پاکستانک آئو غازی‘‘ (سبز دستار سے نبی کریم خوش ہیں۔ پاکستان کا غازی آگیا ہے)۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کئی ایسے بزرگ بھی ہیں جو اپنی اولادوں کو مرتے وقت نصیحت کرکے رخصت ہوئے کہ جب کشمیر پاکستان بن جائے تو ان کی قبر پر آکر اعلان کردینا۔ پھر یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں کل تک جوان لاشوں کو سبز ہلالی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا رہا جہاں ایک مقبول اور بزرگ لیڈر کی یہ آواز آج بھی گونج رہی ہے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس علاقے کے باسیوں کے خواب تعبیر سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی تنہائی، بے سروسامانی ان کے خوابوں اور نعروں کا مذاق اُڑارہی ہے۔ پاکستان ان لوگوں کا قانونی فریق بھی ہے اور وکیل ہونے کا دعوے دار بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی تمام دستاویزات میں تین اہم فریقوں میں سے ایک ہے۔ اس قدر بھاری ذمے داری سے ابھی پاکستان عہدہ براء نہیں ہو سکا کہ سوشل میڈیا کے جنگجو ٔوں نے خیالوں اور خوابوں کے گھوڑوں کا رخ واخان کی طرف موڑ دیا۔ افغانستان سے ہونے والی شر انگیزی کا جواب دینا مناسب ہے اور یہ آنکھ مچولی برسوں سے جاری ہے مگر افغانستان کی حدود میں داخل ہوکر ایک ایسے علاقے کا قبضہ کرنا جو اس کا قانونی حصہ بھی ہے ایک عجیب خواہش ہے۔ کشمیر جیسی ذمے داریوں کے اصل محاذ کو ادھورا چھوڑ کر پرائے علاقے پر قبضے کی سوچ کے شہسوار اصل ذمے داریوں سے فرار کا ہی ایک انداز اختیار کر رہے ہیں۔ اس سوچ پر تو یہ بول صادق آتے ہیں ’’چھوڑ چھاڑ کے اپنے سلیم کی گلی، انار کلی ڈسکو چلی‘‘۔

حال ہی میں سری نگر سے تعلق رکھنے والے دو راہنمائوں کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں ایک حریت کانفرنس کے دوبار چیرمین رہنے والے پروفیسر عبدلغنی بھٹ اور دوسرے لندن میں مقیم کئی دہائیوں سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مرتب کرنے اور انہیں عالمی اداروں میں پیش کرنے والے جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ سید نذیر گیلانی تھے۔ پروفیسر عبدالغنی بھٹ کی بات چیت سوشل میڈیا پر سنی جبکہ سید نذیرگیلانی سے میری بالمشافہ بات چیت ہوئی۔ دونوں واقفانِ حال نے کشمیر کے حوالے سے اگر کسی امید کا اظہار کیا تو اس میں پاکستان کا نام کہیں نہیں کسی انجانے اور اجنبی کردار کے حوالے سے امید کا دیا جل بجھ رہا تھا۔ جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ اسلام آباد کے فیصلہ ساز جس بندگلی میں پھنس گئے ہیں وہاں کشمیر سے دامن بچا کر چلنے میں ہی ان کی عافیت ہے۔ مشاہد حسین سید کا یہ وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ پاکستان کی سابق عسکری قیادت بہ الفاظ دیگر جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ امریکا کو یقین دہانی کراچکے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے، میزائلوں کی رینج کم کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کو بھول جائیں گے۔ جنرل حمید گل مرحوم اصرار اور تکرار کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ سری نگر کی آزادی کی کنجی کابل میں ہے۔ جس دن امریکی فوج کابل سے نکل گئی سری نگر کی آزادی کی منزل قریب آئے گی۔ بگرام ائربیس کو خالی ہوئے تین سال ہونے کو ہیں مگر کشمیر بھارت کے جبڑوں میں زیادہ سختی سے کسا جا چکا ہے۔ طالبان کے کابل میں برسراقتدار آنے سے ہماری ساری امیدیں وابستہ تھیں اور انہیں برسراقتدار آئے ہوئے کئی برس ہوگئے مگر بات بننے نہیں پائی۔ اب افغانستان میں کسی سے امید بھی وابستہ نہیں جا سکتی۔ اب یہی باقی ہے کہ مریخ سے کوئی مخلوق آکر افغانستان میں بس جائے تو پھر شاید ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح ہنسی خوشی رہنے لگیں۔

جب سے سوشل میڈیا جنگجو واخان کی پٹی پر قبضے کے گھوڑے دوڑانے لگے تو چینی سفیر نے کابل میں افغان وزیر سراج الدین حقانی کے ساتھ ملاقات کرکے تصویر بھی شائع کرائی۔ سراج حقانی پاکستان کے سب سے معتبر دوستوں میں گنے جاتے تھے۔ واخان کی پٹی پر قبضہ کرکے پاکستان کیا کرے گا؟ قائد اعظم محمد علی جناح کی مہربانی اور لاتعداد گم نام حریت پسندوں کی قربانیوں سے پاکستان کے پاس اتنا رقبہ تھا کہ اسے کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ آدھا چلا گیا مگر آج بھی خیبر سے کراچی تک وسیع وعریض علاقے کا نام پاکستان ہے۔ آج کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ پاکستان کو سنبھالا جائے۔ اس میں ناراض اور مضطرب عناصر کو منت سماجت کرکے قومی دھارے میں لایا جائے۔ ریاست اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھے کہ یہی ایک کثیر القومی اور مختلف المزاج معاشرے میں زندہ رہنے اور پنپنے کے انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سری نگر کے ان لوگوں کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں پاکستان سے غازیوں کی آمد کے انتظار میں جن کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ واخان میں کوئی بھی پھولوں کے ہار لیے کھڑا نہیں۔ فی الحال پاکستان کو اپنے علاقوں کو اچھے انداز سے سنبھالنے اور چلانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کشمیر میں پیش قدمی کی منزل کو نگاہوں اور پالیسی کا مرکز بنائے رکھنا ہے۔ واخان کو لے کرکیا کرنا ہے؟ سوائے اس کے گوادر کو وقتی طور پر ہی سہی ایشیا ٹائمز کے بقول چین کا ’’گرم آلو‘‘ بنانے کے بعد کوئی بڑی طاقت اب واخان کے ذریعے چین کے باہر نکلنے اور چابہار تک پہنچنے کے راستوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔ اسی سے چین کے گھیرائو کا وہ منصوبہ مکمل ہوتا ہے جس کے سائے گزشتہ کئی دہائیوں سے لہراتے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے تخیلاتی تیر اندازوں کو علم نہیں کہ کشمیر جانے کے لیے ٹینکوں میں تیل ڈالنے کو پیسہ نہیں تو واخان جانے کے لیے پیسہ کون دے گا؟ جو یہ پیسہ دے گا سمجھیں یہ اسی کا ایجنڈا ہے۔ اُدھر مودی جی فرمارہے ہیں کہ بنگلا دیش والے آج کل ہندوئوں کے مندروں کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو بابر کے سپاہیوں نے پانچ سو سال پہلے ایودھیا میں کیا تھا۔ بابر کے سپاہیوں اور بنگلا دیشی طلبہ کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ اِدھر وزیر دفاع خواجہ آصف فرمارہے ہیں کہ محمود غزنوی لٹیرا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ پرانے دشمن کے ساتھ ہماری نظریاتی فریکونسی ملتی جا رہی ہے شاید اس لیے کہ ہمیں کان سے پکڑ کر ایک نیا نویلا دشمن دکھا دیا ہے اور اب ہم نے تاریخ کے دھارے کو بھی اسی انداز سے موڑنا ہے اور دشمنی اور دوستی کا یہی نیا نصاب پڑھنا ہے۔