جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم اس بار ہمیں بہت دنوں کے بعد یاد آئے ہیں۔ خورشید ندیم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کی پوری فکر اور شخصیت جاوید احمد غامدی کی ادھ کچری فکر میں جذب ہے۔ چنانچہ وہ اپنے کالموں میں اکثر الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے ان پاکستانیوں کو موضوع بنایا ہے جو یورپ جانے کی کوشش میں سمندر کی نذر ہوگئے۔ خورشید ندیم کا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کا اصل مسئلہ غربت نہیں جہالت ہے۔ خورشید ندیم نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’چند دن پہلے کی بات ہے۔ اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں لیے، ہمارے بہت سے جوان سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ یہ موت انہوں نے لاکھوں روپے دے کر خریدی۔ ان کے سامنے مثالیں موجود تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ خطرہ مول لیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ غربت؟ بے روزگاری؟
میرا جواب نفی میں ہے۔ ہمارا مسئلہ غربت نہیں‘ جہالت ہے۔ بیروزگاری نہیں‘ ہڈ حرامی اور بددیانتی ہے۔ میں یہ بات تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں اور بہت سے لوگوں سے اس کے حق میں گواہی لے چکا ہوں۔ اس سے حکومت کی نااہلی کا مقدمہ کمزور نہیں ہوتا۔ ریاست کی بے نیازی بھی اپنی جگہ ہے، جو قابل ِ مذمت ہے مگر سب کچھ حکومت نہیں ہوتی۔ ہم سماج کو ریاست سے الگ کر کے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ سماج کے وجود کے بارے میں باخبر بھی نہیں ہیں۔ ہم فرد کو جانتے ہیں یا ریاست کو۔ اس لیے ان باتوں پر کم ہی غور کرتے ہیں۔
یونان جانے کے لیے ان نوجوانوں نے کم از کم 15لاکھ روپے دیے۔ 15 لاکھ سے کوئی چاہے تو پاکستان میں ایک معقول روزگار کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ محنت سے اس میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔ ہمارا نوجوان مگر اس جانب بہت کم سوچتا ہے۔ اس کے سامنے روزگار کے حوالے سے صرف دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمت اور دوسرا باہر جانا۔ نجی شعبے کی ترقی کیسے ہو رہی ہے، اس میں اس کے لیے کتنے امکانات چھپے ہیں، وہ اس پر غور کرنے پر آمادہ نہیں۔ سرکاری ملازمتیں، حکومت چاہے بھی تو آبادی کی نسبت سے، سب کو نہیں دے سکتی۔ عوامی دبائو میں جب بعض حکومتوں نے سرکاری اداروں میں لوگ ٹھونسنا شروع کیے تو وہ ان کے بوجھ تلے دب کر برباد ہو گئے۔ (روزنامہ دنیا، 26 دسمبر2024ء)
خورشید ندیم چونکہ ’’غامدیانہ‘‘ فکر کے حامل ہیں اس لیے انہیں غربت کے مسئلے کی سنگینی کا شعور نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس امر سے بھی آگاہ نہیں ہیں کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت یعنی رسول اکرمؐ نے اس حوالے سے کیا فرمایا ہے۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایسی غربت سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ غربت انسان کو کفر تک کیسے لے جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کو کھانے پینے کے لیے بھی دستیاب نہ ہو، جب اس کے سر پر چھت نہ ہو، جب وہ مانگ تانگ کر زندگی بسر کررہا ہو، جب ہر انسان اسے حقارت سے دیکھ رہا ہو، جب وہ بیمار پڑتا ہو تو اس کے پاس علاج کے بھی پیسے نہ ہوں، جب اس نے کسی خوشی کا منہ نہ دیکھا ہو، جب اس کے لیے رات اور دن اور سال مہینوں میں کوئی فرق نہ ہو، جب وہ طویل زندگی غربت میں بسر کرچکا ہو تو اسے خیال آسکتا ہے کہ یقینا میرا کوئی خدا نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ مجھے اتنا بے یارومددگار نہ چھوڑتا۔ وہ مجھے ہر لمحہ اذیت سہنے کے لیے نہ چھوڑ دیتا۔ یہی وہ تجربہ ہے جس کے حوالے سے رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ایسی غربت سے اللہ کی پناہ طلب کرو جو انسان کوکفر تک لے جاتی ہے۔ لیکن غربت کی دو اقسام ہیں۔
(1) اختیاری غربت (2) بے اختیاری غربت
اختیاری غربت وہ تھی جسے رسول اکرمؐ نے اختیار کیا ہوا تھا۔ تاریخ کے ایک مرحلے پر رسول اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ اگر آپ کہیں تو احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ مگر رسول اکرمؐ نے سونے کا پہاڑ لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ ایک دن سیر ہو کر کھانا کھائوں اور اللہ کا شکر ادا کروں اور دوسرے دن بھوکا رہوں اور بھوک پر صبر کروں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن کا مقام شکر اور صبر کے درمیان ہے۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے گھر میں کئی کئی دن تک چولہا نہ جلتا۔ سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ فتح خیبر تک ہمارا یہ حال تھا کہ ہم کھانے کے اوقات میں صرف کھجوریں کھاتے تھے اور پانی پی لیتے تھے۔ رسول اکرمؐ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپؐ نے اپنے پیچھے ایک درہم بھی نہ چھوڑا۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امہات المومنین کے گھر ایک کمرے پر مشتمل تھے۔ ان میں نہ کوئی ڈرائنگ روم تھا، نہ باورچی خانہ تھا، نہ غسل خانہ اور باتھ روم تھا۔ امہات المومنین کے یہ کمرے بھی مٹی کے بنے ہوئے تھے اور ان پر کھجور کے پتوں کی چھت پڑی ہوئی تھی۔ یہ تھی ’’اختیاری غربت‘‘ اس غربت کے ’’مضمرات‘‘ نہیں تھے۔ اس کا کوئی منفی اثر نہ نفسیات پر پڑ رہا تھا، نہ سماجیات پر، اس سے نہ مرتبوں میں کوئی کمی واقع ہورہی تھی، نہ عزت میں کوئی کمی ہورہی تھی۔
صحابہ کرام کی عظیم اکثریت نے بھی اسی اختیاری غربت کو اپنایا۔ سیدنا ابوبکرؓ کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کی بیوی نے بیت المال سے ملنے والے میٹھے کو تھوڑا تھوڑا جمع کرکے ایک دن سیدنا ابوبکرؓ کے لیے میٹھی ڈش بنادی۔ سیدنا ابوبکرؓ نے پوچھا کہ اس ڈش کے لیے میٹھا کہاں سے آیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بیت المال سے ملنے والے میٹھے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر یہ ڈش بنائی گئی ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے گھر کا کام کم سے بھی چل سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیت المال سے ملنے والے میٹھے میں کمی کرادی۔ سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں مسلمان بہت خوشحال ہوگئے تھے۔ مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرایا تھا۔ مسلمانوں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی ہوگئی تھی مگر سیدنا عمرؓ کے پاس صرف ایک لباس تھا اور اس لباس میں بھی سترہ سترہ پیوند لگے ہوتے تھے۔ مصر فتح ہوا تو مصر کے گورنر نے سیدنا عمرؓ کو اطلاع دی کہ اہل ِ مصر شہر کی چابی آپ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ نے مصر کا سفر اختیار کیا۔ مصر کے گورنر نے مصر کی سرحد پر سیدنا عمرؓ کا استقبال کیا۔ گورنر نے دیکھا کہ سیدنا عمرؓ کا لباس گرد آلود اور پیوند لگا ہے۔ چنانچہ انہوں نے سیدنا عمرؓ سے گزارش کی کہ اہل مصر نفاست کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ اپنا لباس بدل لیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ سیدنا عمرؓ کے سامنے خراب لباس کا یہ مسئلہ کچھ عرصہ بعد پھر آیا۔ اس بار اس مسئلے کو سیدہ عائشہؓ جیسی جلیل القدر ہستی نے اٹھایا۔ انہوں نے سیدنا عمرؓ کو بلا کر کہا کہ فتح خیبر تک ہمارے پاس مالی وسائل نہیں تھے اس لیے ہم کھجور کھا کر اور پانی پی کر گزارا کرتے تھے مگر اب ہمارے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ امیر المومنین ہیں، دنیا بھر کے سفراء اور وفود آپ سے ملنے آتے ہیں۔ چنانچہ آپ بہتر لباس زیب تن کرنے لگیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ سیدہ عائشہؓ کو وہ جواب نہیں دے سکتے تھے جو انہوں نے مصر کے گورنر کو دیا تھا۔ آپؐ نے سیدہ عائشہؓ کے سامنے ایسی بات کہی کہ سیدہ عائشہؓ کو خاموش ہونا پڑا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا میں رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ اختیاری غربت کی چند عظیم الشان مثالیں ہیں۔ ان مثالوں کو ہمارے صوفیا اور علما نے بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے اختیاری غربت ’’نایاب شے‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اسلام، سیرت طیبہ، سیرت صحابہ، سیرت صوفیا اور سیرت علما سے ہمارا تعلق مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم معاشرے میں ’’فضیلت‘‘ صرف دو چیزوں کو حاصل تھی، ایک تقوے کو اور دوسرے علم کو۔ مگر اب عام لوگ کیا مذہبی لوگوں میں بھی نہ کوئی تقوے کی فضیلت سے ہمکنار ہے، نہ کوئی علمی فضیلت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس وقت پوری مسلم دنیا سیکولر مغرب، سیکولر چین اور سیکولر بھارت کی طرح صرف دو چیزوں کا طواف کررہی ہے۔ ایک طاقت اور دوسری دولت۔ اکبر الٰہ آبادی نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا۔
نہیں کچھ اس کی پرسش الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر کا زمانہ انگریزوں کے غلبے کا زمانہ تھا اور ’’سرکاری نوکری‘‘ پر پڑھے لکھے لوگوں کی رال ٹپکتی تھی۔ اس لیے کہ سرکاری نوکری میں تنخواہ اچھی ملتی تھی۔ آج یہ مسئلہ اکبر کے زمانے سے کہیں زیادہ سنگین ہوچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بیٹی یا بہن کا رشتہ کرتے ہوئے لڑکے کی شرافت اور نجابت کو دیکھا جاتا تھا، اس کے چال چلن اور اس کی طبیعت کی ٹوہ لی جاتی تھی مگر اب لڑکوں کی ایک چیز دیکھی جاتی ہے، ان کی تنخواہ، ان کی آمدنی، ان کا مالی مرتبہ، ان کا مالی اعتبار سے خاندانی رتبہ۔
اس وقت طاقت اور دولت کی بنیاد پر دنیا تین درجوں میں منقسم ہے۔
(1) فرسٹ ورلڈ
(2) سیکنڈ ورلڈ
(3) تھرڈ ورلڈ
یعنی ترقی یافتہ دنیا، ترقی پزیر دنیا اور پسماندہ دنیا، دنیا کی اس تقسیم میں مذہب، تہذیب، تاریخ شرافت، نجابت، اخلاق اور کردار کا کوئی دخل نہیں۔ یہ تقسیم صرف دو بنیادوں پر ہوئی ہے۔ دولت کی بنیاد پر اور طاقت کی بنیاد پر۔ چین گزشتہ چالیس برسوں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے اور اس کا سب سے بڑا کمال یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے چالیس سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ بھارت اس سلسلے میں چین کا ہم پلہ تو نہیں ہے مگر بھارت کی جس خوبی کو ساری دنیا سراہ راہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے گزشتہ چالیس سال میں 30 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور بھارت پوری تیسری دنیا کے لیے ’’نمونۂ عمل‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس امر کا اظہار ہے کہ اب دولت نے پوری دنیا کے لیے ’’مذہب‘‘ کی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ جس طرح مذہب کو ہر مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے اسی طرح اب دولت کو ہر مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس منظرنامے میں اصل مسئلہ غربت ہے جہالت نہیں۔ ’’اختیاری غربت‘‘ نہیں غیر اختیاری غربت۔ اس دنیا میں ’’جاہل‘‘ بھی وہ ہے جو ’’غریب‘‘ ہے۔ جس کے پاس دولت ہے وہ ’’شریف‘‘ بھی ہے، ’’نجیب‘‘ بھی۔ وہ ’’ذہین‘‘ بھی ہے اور ’’نمونۂ عمل‘‘ بھی۔
اس منظرنامے کا مفہوم یہ ہے کہ اب انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ دنیا اور اس کا حصول ہے۔ خود مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی دنیا کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ دنیا جسے قرآن مجید فرقان حمید نے ’’متاع‘‘ قلیل کہا ہے۔ وہ دنیا جس کی نبی اکرمؐ نے مذمت فرمائی ہے۔ رسول اکرمؐ ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا مل گیا۔ رسول اکرمؐ اسے دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی رک گئے، رسول اکرمؐ نے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی اس بکری کے بچے کو خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بچہ ہے اوپر سے مرا ہوا بھی ہے، ہم میں سے کوئی اسے مفت بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ نے جس دنیا کو بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ٹھیرایا تھا آج وہی دنیا ہمارا خواب ہے۔ ہمارا Ideal ہے۔ ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس کے لیے، ہم رات دن ایک کرتے ہیں تو اس کے لیے، ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں تو دنیا کے لیے، جنگیں ہو تو ہیں تو دنیا کے لیے، دوستیاں ہوتی ہیں تو دنیا کے لیے، اس دنیا میں اگر غربت سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟ اس دنیا میں لوگ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے سمندر میں غرق نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟۔