اصلاح معاشرہ کے بنا اصلاح جمہوریت و اسلامی نظام کیسے؟

276

اصلاح معاشرہ اور اصلاح جمہوریت کے بنا ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظام کو انتہائی لاپروائی اور بے بسی سے چلاتے ہوئے ملک کی کل آبادی 25 کروڑ کے قریب پہنچا چکے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کو 77 سال ہوجانے کے باوجود اسے نہ تو مکمل طور پر اسلامی بنایا جا سکا اور نہ ہی اس کے تقاضوں کے مطابق جمہوری بتایا جاسکا، البتہ ہم اپنے ملک کو جمہوریت پسندی کا دعویدار کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہم عوام یا قوم کے نام پر اچھا یا برا کیے جارہے ہیں حالانکہ ملک کے بیش تر امور اور اہم فیصلوں سے پوری قوم ان پر عمل درآمد تک سے لاعلم رہتی ہے۔

جمہوری پاکستان کی یہ بات اب عام ہوچکی ہے کہ یہاں اصل حکمراں وہ طاقت ہے جسے خلائی مخلوق کا نام بھی دیا گیا ہے، اگرچہ پاک فوج کے ایک جرنل نے اس نام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ملک کے ادارے کو ایسے القابات سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی حالانکہ وہ ملک واحد غیر متنازع اور قوم کا پسندیدہ ادارہ ہے جس کی جملہ صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا‘‘۔

وطن عزیز کی آزادی اور اس نظام کے فعال ہونے کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ ملک کو بانی پاکستان کے خوابوں کے مطابق ڈھالنے اور بنانے کے لیے اقدام کیے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ قیام کی آزادی کے بعد ہی سے اس کے نظام کو مفاد پرست سیاستدانوں کے سپرد کردیا گیا جنہوں نے جمہوریت کے گن گاتے ہوئے صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ملک اور قوم کے مفاد کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی عناصر کی اپنے مفادات کے لیے ایسی چالوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب ان اقدامات کو آئین اور قانون کا غلاف بھی پہنایا جارہا ہے۔ نمونے کے طور پر ہم حالیہ 26 ویں آئنی ترمیم دیکھ سکتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں جمہوریت عام عوام کو طاقت ور بنانے کے لیے قائم ہے بلکہ مستحکم بھی ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں صرف ایک طاقتور ادارے کو مزید طاقت فراہم کرنے کے لیے جمہوریت کو استعمال کیا جارہا ہے جس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں اور سیاسی نظام کی اصلاح اور استحکام نہ ہونا ہے۔

اس تناظر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ سیاست دانوں اور جمہوری سیاسی نظام کی اصلاح کیسے ہوگی اور کون کرے گا؟ اور کب کرے گا؟ موجودہ جمہوری نظام میں تو جمہوریت کی اصلاح کی کیا توقع تک نہیں کی جاسکتی ہے جب جمہوریت کی اصلاح نہیں ہوگی اور اسے جمہور کے لیے کارآمد نہیں بنایا جائے گا تو معاشرے اسی طرح بے راہ روی کا شکار ہوکر تباہی کی طرف ہی بڑھ رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اصلاح معاشرہ کرتے ہوئے اصلاح جمہوریت کی طرف بڑھا جائے۔ جمہوریت اور جمہوری ملکوں کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہاں عام لوگوں کے مفادات اور بنیادی ضروریات سمیت ہر طرح کی ضروریات اور مفادات کا پوری طرح خیال رکھنے کے ساتھ ان کے ہر معاملے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں عوامی مفادات کے تحفظ کے بجائے انہیں پامال کیے جانے کا سلسلہ عروج پر ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں بنیادی ضروریات پانی، بجلی اور گیس تک کا بحران ہے۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد کے لوگ یوٹیلیٹی سروسز سمیت بیشتر سہولتوں سے محروم ہیں مگر جمہوریت اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے دعویدار حکمران ماسوائے اپنے مفادات اور خواہشات پوری کرنے کے اور کچھ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے حکمرانوں کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کے باعث کروڑوں پاکستانی اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر دیگر ملکوں کی طرف ہجرت کررہے ہیں اور اس ہجرت کے بھیانک نتائج بھی بھگت رہے ہیں جس کی تازہ مثال یونان کشتی حادثہ ہے اس صورت حال کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے، اسے حکومتی عناصر کی بے حسی نہیں تو پھر کیا کہا جائے گا۔