برطانیہ میں رہائش کا بحران

304

آسانی اب کسی کے لیے نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی بحرانوں نے گھیر رکھا ہے۔ برطانیہ کو بھی معاشی الجھنوں نے گھیر رکھا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ ایسے میں افلاس کی سطح کا بلند ہونا بھی لازم ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ انگلینڈ میں دو تہائی محنت کش مکان کے کرائے کے متحمل نہیں ہو پا رہے۔ برطانوی اخبار دی گارجین کے لیے Phineas Harper لکھتی ہیں کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ رہائش کے اخراجات کو قابل ِ برداشت بنانے پر کام کرے گی۔ اگر اس معاملے میں نجی شعبے پر زیادہ بھروسا کیا گیا تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ اِس بار کرسمس کے موقع پر بیلِف زیادہ مصروف رہے ہیں۔ انگلینڈ اور ویلز میں کرایا ادا نہ کر پانے کی صورت میں مکانات خالی کرانے کی شرح میں (گزشتہ سال کے مقابلے میں) 11.2 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی سرد مہینوں میں ہزاروں گھرانے بے گھر ہوئے ہیں۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انگلینڈ میں لوگ اپنے مکانات کے کرائے اس قدر چارج کر رہے ہیں کہ دو تہائی محنت کشوں کے لیے ادا کرنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ ہاؤسنگ سے متعلق خیراتی ادارے شیلٹر کے پرچم تلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق کم و بیش 45 لاکھ افراد رہائشی کرائے ادا کرنے میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ یہ حکومت کے لیے بہت مایوس کن خبر ہے۔ وزیر ِاعظم کیئر اسٹارمر نے عوام کے مسائل حل کرنے کے ایجنڈے پر کامیابی حاصل کی اور اْس ایجنڈے میں لوگوں کو کرائے کے معاملے میں ریلیف دینے کا وعدہ نمایاں تھا۔

نائب وزیر ِاعظم اینگلا رینر نے عہد کیا ہے کہ حکومت اگلے پانچ سال کے دوران 15 لاکھ نئے مکانات تعمیر کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو مکانوں کے کرائے نیچے لانے میں خاصی مدد ملے گی۔ ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ کے تحت کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ محض مکانات تعمیر کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر حکومت 15 لاکھ کے بجائے 60 لاکھ مکانات تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی مسئلہ اطمینان بخش حد تک حل نہیں ہو پائے گا۔ برطانیہ میں پرائیویٹ رینٹل سیکٹر شکستہ حالت میں ہے۔ کرائے دار بہت پریشان ہیں۔ مکان مالک من مانی کر رہے ہیں اور کم آمدنی والوں کو ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں۔

مکانات کے بڑھتے ہوئے کرایوں نے برطانیہ میں عام آدمی کی مشکلات بہت بڑھادی ہیں۔ مہنگائی کے باعث کھانے پینے کی اشیا کا حصول بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ تعلیم بھی سستی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کپڑوں، جوتوں اور دوسری بہت سی روزمرہ استعمال کی اشیا پر بہت کچھ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت کم و بیش 23 فی صد رہائش پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ بہت سے مالک مکان اپنے مکانات اور اپارٹمنٹس کا بہت زیادہ کرایا وصول کرتے ہیں اور معاملے میں ذرا سی بھی انسانیت دکھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس وقت رہائش کے معاملے میں پرائیویٹ سیکٹر سے ڈٹ کر ٹکر لینے کی ضرورت ہے۔ سوشل ہاؤسنگ بہت بڑے پیمانے پر ضروری ہے۔

برطانیہ میں زمین کم ہے اس لیے مہنگی بھی بہت ہے۔ ڈیویلپرز کو حکومت کی طرف سے بہت سے قوائد و ضوابط کا سامنا ہے۔ مکانات کی لاگت میں انقلابی سطح پر کمی یقینی بنانا لازم ہے۔ ایسا کیے بغیر یہ مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے گا۔ ہر سال مکانات تعمیر تو کیے جاتے ہیں مگر اْن کی تعداد خاصی کم ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد نئی زندگی شروع کرتے ہیں یعنی گھر بساتے ہیں۔ فیملی شروع کرنے کے لیے انہیں پرائیویٹ رہائش بھی درکار ہوتی ہے۔ عام آدمی کے لیے رہائش کا مسئلہ حل کرنا ترجیحات میں بہت بلند مقام پر ہونا چاہیے۔ اگر مارکیٹ کو اْس کی مرضی کے مطابق مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے تو کیا یہ مسئلہ واقعی حل ہو پائے گا یا پھر برطانوی حکومت کو ہاؤسنگ سیکٹر کے فروغ کے حوالے سے زیادہ اسٹرٹیجک ہونا چاہیے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ صرف مکانات کی تعمیر ضروری ہے یا خاص قسم کے مکانات کی تعمیر لازم ہے۔ اگر کسی علاقے میں نئی تعمیرات کی گنجائش ہو تب بھی دیکھنا پڑے گا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کھل کر کام کرنے دینے سے معاملہ طے ہو پائے گا یا پھر سوشل ہاؤسنگ کا تصور بروئے کار لانا بہتر ہوگا۔ پرائیویٹ سیکٹر کو چند ایک نئے ضابطوں کا پابند بنانا لازم ہے۔ چھوٹے مکانات کی تعمیر کا رجحان پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی فیملی کے لیے چھوٹا مکان کافی ہوتاہے۔ اْس کا کرایا بھی کم ہوگا۔

اگر سوشل ہاؤسنگ کا تصور اپنایا جائے تو چھوٹے اپارٹمنٹس تیار کیے جاسکتے ہیں جن کے کرائے کم ہوں گے اور عام آدمی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکے گا۔ سوشل ہاؤسنگ کے کرائے عام پرائیویٹ کرایوں کے نصف ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیادہ لوگ کم خرچ میں اچھی رہائش پاسکتے ہیں۔ اگر لوگ کم کرائے پر رہ سکیں گے تو دیگر معاملات پر خرچ کرنے کے لیے اْن کے پاس اچھی خاصی رقم بچے گی اور یوں مقامی معیشت بھی تیزی سے پروان چڑھے گی۔ ہاؤسنگ کا بحران بنیادی پر غیر معمولی انسانی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ برطانوی معیشت کی گردن کا پھندا بھی بن سکتا ہے۔ اگر لوگ کرائے کی مد میں بہت زیادہ کرچ کرنے پر مجبور ہوں تو پھر دیگر اخراجات کے لیے اْن کے پاس کچھ زیادہ بچتا نہیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ فلاحی تنظیم شیلٹر کا کہنا ہے کہ اگر سوشل ہاؤسنگ کے اصول کے تحت 90 ہزار نئے رہائشی یونٹ تعمیر کیے جائیں تو برطانوی معیشت کے ٹرن اوور میں 50 ارب پاؤنڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ (دی گارجین ڈاٹ کام)