پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ایک گمبھیر معاشرتی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس کے اثرات صرف خاندانوں تک محدود نہیں بلکہ پورے سماج کو متاثر کر رہے ہیں۔ معروف کالم نگار رئیس فاطمہ نے حالیہ دنوں میں اس رجحان کے اسباب اور نتائج پر روشنی ڈالی، اور اس کے پس منظر میں موجود رویوں اور فیصلوں کو زیر بحث لائی ہیں۔ ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق طلاق کی شرح میں 35 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے، اور 4 لاکھ 99 ہزار خواتین طلاق یافتہ ہیں۔ لاہور کی فیملی کورٹس میں سال بھر کے دوران 13 ہزار سے زائد گھرانے ٹوٹ چکے ہیں، اور روزانہ خلع کے 40 سے زائد مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل کا دیکھا جائے تو پاکستان میں 2005 سے 2008 کے دوران کل 75,000 طلاقیں رجسٹر ہوئیں۔ 2008 سے 2011 کے درمیان یہ تعداد 24,139 تھی۔ 2012 میں خلع کے 13,299 واقعات رپورٹ ہوئے، جو 2013 میں بڑھ کر 14,243، 2014 میں 16,942 اور 2016 میں 18,091 تک پہنچ گئے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو قانون کی نظر میں آئے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں ایسے واقعات کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے، اور انہیں رپورٹ کرنا عام طور پر گوارا نہیں کیا جاتا، جس کے باعث کئی کیسز دستاویزی شکل میں موجود نہیں۔ یہ اعداد وشمار اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت اور انا پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امریکا میں مجموعی طور پر طلاق کی شرح 45 فی صد ہے۔ یورپ میں پرتگال طلاق کی شرح میں سرفہرست ہے، جہاں یہ حیران کن طور پر 92 فی صد ہے۔ اسپین میں یہ شرح 85 فی صد تک پہنچ چکی ہے، اور لکسمبرگ، فن لینڈ، بلجیم، فرانس اور سویڈن میں یہ تقریباً 50 فی صد ہے۔ طلاق کے بڑھتے رجحان کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سے بنیادی میاں بیوی کے درمیان معمولی تنازعات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا انحصار نہ صرف میاں بیوی کے باہمی رویوں بلکہ دونوں کے خاندانوں کی حکمت عملی پر بھی ہوتا ہے۔ رئیس فاطمہ نے درست توجہ دلائی ہے کہ ایک مضبوط اور متوازن خاندان بنانے میں ماں کی دانشمندی اور لڑکی کی تربیت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پہلے بزرگ رشتے بچانے کے لیے ثالثی کرتے تھے، مگر اب مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے کے باعث یہ کردار محدود ہو گیا ہے، شادی سے پہلے اور بعد میں صحیح مشورہ نہ ملنے کی وجہ سے بھی رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ طلاق کی وجوہات میں مال و دولت کی ہوس، خاندان کی بلاوجہ مداخلت، اور ازدواجی زندگی میں صبر و تحمل کی کمی شامل ہیں۔ طلاق کا سب سے بڑا منفی اثر بچوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے، جو نہ ماں کی محبت پاتے ہیں نہ باپ کی۔ ٹی وی ڈراموں کے غیر حقیقی کردار اور مال و دولت کی بنیاد پر رشتے طلاق کے اس بڑھتے رجحان کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کہانیوں کا محور شادیوں، طلاقوں، خاندانی چپقلش، اور منفی کرداروں تک محدود ہو گیا ہے۔ یہ ڈراما نہ صرف معاشرتی اقدار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کی ذہنی تربیت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ڈرامے بنانے والے جب ان کے موضوعات پر تنقید کا سامنا کرتے ہیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ صرف وہی دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے، کیونکہ ناظرین ایسی ہی کہانیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مواد معاشرتی مسائل کو اُجاگر کرنے کے بجائے انہیں مزید فروغ نہیں دے رہا؟ ہمارے ڈرامے جن اخلاق باختہ موضوعات کو موضوع بناتے اور فروغ دیتے ہیں، ان سے نوجوان نسل اور خاص طور پر خواتین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کہانیوں میں محبت کی شادی، گھر سے بھاگنا، سازشیں کرنا، اور قابل احترام رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا اس طرح دکھایا جاتا ہے جیسا کہ کے یہ معمول کی بات ہو، لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ کم یا زیادہ اپنے اثرات آہستہ آہستہ ڈالتے ضرور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈراموں میں دکھائے جانے والے خواب اور حقیقی زندگی کے مسائل کے درمیان خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔ جب یہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ازدواجی رشتے تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ ماہرین کی تحقیقات کے مطابق، میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان جرنل آف اسلامک ریسرچ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق، فیس بک جیسی سوشل میڈیا ایپس دنیا بھر میں طلاق کی ایک تہائی وجوہات میں شامل ہیں۔ طلاق کی ایک اور وجہ وہ شادیاں ہیں جو والدین کی نافرمانی اور خوابوں کے شہزادے یا شہزادی کی تلاش میں کی جاتی ہیں۔ ایسی خود غرضانہ شادیاں نہ صرف خاندانوں کو تباہ کرتی ہیں بلکہ ان کا انجام بھی زیادہ تر طلاق اور مایوسی ہوتا ہے۔ شادی شدہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکیوں کو شروع سے صبر و تحمل، عزتِ نفس، اور رشتوں کی قدر کرنا سکھایا جائے۔ اسی طرح، لڑکوں کو اپنی ذمہ داریوں اور رشتوں کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔