امریکا سے معاشی جنگ‘ چین کی پالیسی کیا ہوگی؟

172

امریکا میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ماہ عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ ان کی صدارت سے ان کے اتحادی اور دشمن دونوں ہی پریشان ہیں۔ نومنتخب صدر نے کرسی پر براجمان ہونے سے قبل جو عزائم ظاہر کیے ہیں ، ان کی روشنی میں دنیا کی تشویش بجا ہے۔ گزشتہ دور صدارت میں چین ٹرمپ کا خصوصی ہدف رہا تھا۔ رئیل اسٹیٹ اور کاروباری ہونے کے باعث ٹرمپ کا ذہن ملکی معاملات میں سرمایہ کاری کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ گزشتہ دور میں ٹرمپ کی پالیسیوں کا محور 2ایجنڈے تھے۔ ایک اسرائیل کی حفاظت اور دوسرا امریکی سرمائے کی حفاظت۔ صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے انہوںنے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور اقوام متحدہ میں امریکی نمایندگی کرتے ہوئے نکی ہیلی سفارت خانے مقبوضہ بیت المقدس منتقل نہ کرنے والی حکومتوں کو سرعام دھمکیاں دیتی نظر آئی تھیں۔

سرمائے کی حفاظت کے لیے ٹرمپ نے جہاں دنیا میں پھیلی امریکی فوج کو سمیٹنے کا منصوبہ بنایا وہاں حکومتوں پر اضافی ٹیرف لگا کر انہیں اپنا دشمن بھی بنالیا۔ سابقہ دور میں ٹرمپ کا خصوصی ہدف چین کی معیشت تھی،جس کو گرانے کے لیے انہوں نے چینی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرکے انہیں اپنی خدمات سمیٹنے پر مجبور کردیا۔ دوسری بار اقتدار سنبھالنے سے قبل بھی ٹرمپ بیجنگ سے متعلق خطرناک بیانات دے چکے ہیں،تاہم اس بار چین کی جانب سے ردعمل گزشتہ دور کی نسبت قدرے سخت ہونے کی توقع ہے۔ حال ہی میں چین نے امریکی کمپنیوں اور ان کے عہدے داروں پر پابندیاں عائد کرکے اپنے عزائم ظاہر کردیے ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا سے مقابلے کے لیے چین کیا اقدامات کرسکتا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اس کے پاس کون کون سے کارڈز ہیں؟

دسمبر میں امریکا نے چین کے سیمی کنڈکٹر اور چپس سے متعلق کاروبار اور سرگرمیوں پر اپنے تجارتی قوانین کی سیکشن 301 کے تحت تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان تحقیقات کا مقصد روایتی سیمی کنڈکٹر صنعت اور چپ بنانے میں برتری حاصل کرنے کے چین کے عزائم اور امریکی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ میچیور پراسس چپس آٹو موبیل، صحت، انفراسٹرکچر، ائرو اسپیس اور دفاعی صنعت سمیت متعدد شعبوں میں چپ استعمال کی جاتی ہیں۔ چین کی وزارتِ تجارت نے امریکا کے سیکشن 301 کے تحت تحقیقات کے فیصلے کو یک طرفہ قرار دیا تھا اور اسے چپ انڈسٹری کی عالمی طلب و رسد میں خلل ڈالنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ اپنے بیان میں چینی وزارتِ تجارت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سیکشن کے تحت ہونے والے اقدامات سے امریکی کمپنیوں کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔ چینی ٹیکنالوجی پر قابو رکھنے کے لیے چپ سازی پر اپنی برتری برقرار رکھنا امریکا کی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس کے تحت جدید ترین چپس اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی، آلات اور دیگر ساز و سامان تک چین کی رسائی روکنا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روایتی اور لو اینڈ چپ کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری پر نظر رکھنا بھی امریکی پالیسی میں شامل ہے جس کا مقصد ان کے استعمال سے تیار کی گئی چینی مصنوعات کو عالمی منڈی میں بھاری تعداد میں آنے سے روکنا ہے۔ 2دسمبر کو امریکا کے محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکورٹی (بی آئی ایس) نے چینی برآمدات محدود کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات کا مقصد نیکسٹ جنریشن جدید ہتھیاروں، اے آئی اور جدید کمپیوٹنگ ٹیکنالوجیز میں چین کی پیداواری صلاحیت کو مزید کم کرنا ہے۔ امریکی محکمہ تجارت نے ان اقدامات کے تحت 136 چینی کمپنیوں اور 20 اقسام کے سیمی کنڈکٹر، چپ اور سیمی کنڈکٹر کی تیاری میں استعمال ہونے والے آلات اور دیگر سافٹ ویئر ٹولز کو اپنی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا ۔ سینٹر فار نیو امریکن سیکورٹی (سی این اے ایس) کی اسسٹنٹ فیلو روبی اسکینلن کا کہنا ہے کہ چپ ٹیکنالوجی میں چین کی صلاحیت محدود ہے۔ اس لیے وہ امریکی اقدامات پر ردِ عمل میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی چپ بنانے کی ٹیکنالوجی میں چین سے آگے ہیں جب کہ چین جدید ترین چپس مقامی سطح پر تیار کرنے کے قابل نہیں ہوا ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے جواب میں چین نے حال ہی میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ چین کے سرکاری انگریزی اخبار چائنا ڈیلی میں 25 دسمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جوابی اقدمات کے طور پر دفاع اور اہم ترین ٹیکنالوجیوں میں استعمال ہونے والی معدنیات اور دھاتوں کی برآمدات پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق کنڈکٹرز، برقی آلات وغیرہ میں استعمال ہونے والی دھات گیلیم کے دنیا بھر کے ذخائر کا 68 فی صد چین کے پاس ہے۔ یہ دھات 90 فی صد جدید آلات کی تیاری میں کسی نہ کسی طریقے سے استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح سیمی کنڈکٹر میں استعمال ہونے والے کیمیائی مواد جرمینیم کے دنیا میں موجود 86000 ٹن کے ذخائر میں سے امریکا اور چین کے پاس بالترتیب 45 اور 41 فی صد حصہ ہے۔ دنیا کو جرمینیم کی فراہمی کا 68 فی صد چین سے آتا ہے جب کہ گریفائٹ کی عالمی پیداوار میں چین کا حصہ 77 فی صد ہے۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ چین کی وزارتِ تجارت نے ان اہم ترین معدنیات اور دھاتوں کی برآمد کم کرنے اور اس پر مختلف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل میں 30 دسمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق اہم معدنیات اور دھاتوں پر چین کی پابندیوں سے عالمی منڈیوں میں ان کی قیمتوں پر دباؤ بڑھا ہے لیکن ساتھ ہی امریکی خریداروں تک ان کی رسائی آسان بنانے کے لیے بین الاقومی سطح پر سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

وال اسٹریٹ جنرل کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین دنیا میں دھاتیں اور معدنیات فراہم کرنے والا بڑا سپلائر ضرور ہے لیکن ایسا کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ امریکا کے محکمہ شماریات کے مطابق گزشتہ برس امریکا نے چین کے مقابلے میں کینیڈا سے غیر پراسس گیلیم کی زیادہ مقدار درآمد کی تھی جب کہ سب سے زیادہ مقدار میں پراسیسڈ جرمینیم جرمنی سے درآمد کیا تھا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر(آئی ٹی سی) کے ڈیٹا کے مطابق بھی معدنیات کے حصول کے لیے امریکا کا چین پر انحصار کم ہوا ہے۔ یو ایس جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسٹریلیا اور امریکا میں دھاتوں اور معدنیات کی پیداوار سے متعلق صلاحیت بڑھانے کے بعد عالمی منڈی میں چین کی سپلائی کم ہوئی ہے۔ 2022 ء میں عالمی سطح پر چین کی معدنیات اور دھاتوں کی سپلائی میں 70 فی صد کمی واقع ہوئی تھی۔ تجارتی امور کے ماہر اسکاٹ لنسیکوم کے مطابق معدنیات اور دھاتوں سے متعلق چین کو حاصل ایڈوانٹج مستقل نوعیت کا نہیں ہے۔ چین کو شارٹ ٹرم میں قیمتیں بڑھنے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن لانگ ٹرم میں چین رفتہ رفتہ مارکیٹ میں اپنا حصہ کھو سکتا ہے کیوں کہ دیگر ذرائع سے دھاتوں کا حصول شروع ہوتے ہی ان کی قیمتیں گر جائیں گی۔

امریکا کے ساتھ ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں برتری کے لیے چین امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی بھی جاری رکھ سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ جب امریکا نے چپ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چین پر پابندیاں عائد کی تھیں تو چین نے بھی جواب میں امریکا کی چپ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی کے خلاف اپنے اینٹی ٹرسٹ قوانین کے تحت تحقیقات شروع کردی تھی۔ سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی کی اسسٹنٹ فیلو روبی اسکینلن کے مطابق اینٹی ٹرسٹ قوانین امریکا کے خلاف چین کا بڑا ہتھیار ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے پہلے دور کی طرح اس بار بھی چین کے ٹیرف میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے جواب کے لیے چین کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ چین ماضی کی طرح صرف زرعی اجناس اور پھل وغیرہ کی درآمد روک سکتا ہے۔تاہم وال اسٹریٹ جنرل کا کہنا ہے کہ چین کا امریکی کمپنیوں کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کا امکان بہت کم ہے۔ کیوں کہ ریئل اسٹیٹ بحران کی وجہ سے چین کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور اگر امریکی کمپنیوں کو زیادہ تنگ کیا جاتا ہے تو وہ چین سے اپنا سرمایہ نکال لیں گی جس سے دیگر کمپنیوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے اضافی ٹیرف کی صورت میں چین اپنی کرنسی یوان کی قدر کم کرسکتا ہے۔ یوان کی قیمت کم ہونے سے امریکا کے لیے چینی برآمدات کی قیمت کم ہوسکتی ہے اور اضافی ٹیرف کے اثر کو بھی کسی حد تک زائل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم وال اسٹریٹ کے تجزیے کے مطابق چینی کرنسی کی قدر میں کمی سے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہونے میں تیزی آسکتی ہے اور موجودہ حالات میں چین ایسا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ماہرین کے مطابق چینی حکومت کرنسی کی قدر پر بہت محدود سطح کا کنٹرول برداشت کرسکتی ہے لیکن اس میں تیزی کے ساتھ یا بڑی کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔جریدے کے مطابق یہ اقدام چین کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا اور امریکا کے پاس اس حکمت عملی سے نمٹنے کے لیے بھی کئی ذرائع موجود ہیں۔

امریکا کی جانب سے پہلے ہی چینی الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ٹیکس کی وجہ سے ان گاڑیوں کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے، تاہم کاروباری دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ کیا یورپ بھی امریکا سے ملتے جلتے فیصلے کرتا ہے یا نہیں۔اس سے قبل یورپی یونین اور برطانیہ میں اس معاملے پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چینی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد کم کرنے کے لیے کون سے اقدامات کیے جائیں۔ امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ میں چین کے سامنے یورپ کی بڑی منڈی موجود ہے ۔ ٹرمپ کی جانب سے ناٹو کے بڑے اتحادی جرمنی سے متعلق متنازع بیانات کے بعد یہ زیادہ دلچسپ ہو گا کہ یورپ میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔برطانوی تحقیقی ادارے چیتھم ہاؤس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق چین کے منفرد قسم کے سیاسی نظام سمیت اس کی ٹیکنالوجی کی صلاحیت اب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی اور اقتصادی نظام کو ازسر نو تشکیل دے رہی ہے۔چین اب صرف دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی کے حصول کا ہی خواہاں نہیں بلکہ وہ اب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے نئے معیار طے کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملات امریکا اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدانوں میں ایک طویل ترین جنگ کی بنیاد تیار کر رہے ہیں۔