اڑان پروگرام ہوا میں ہے‘ آئی ایم ایف پروگرام میں معاشی نمو ممکن نہیں

126

کراچی( رپورٹَ:قاضی جاوید )سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے جسارت کے سوال ” اُڑان پاکستان حکومتی پروگرام حقیقت یاافسانہ ؟ کے جواب میں نے بتایا کہ ’اڑان پروگرام کی اڑان صرف ہوا میں ہے۔ اس کا زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح کے پروگرام اس وقت لانچ کیے جاتے ہیں جب معیشت مستحکم ، شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہو اور آئی ایم ایف کی محتاجی نہ ہو۔ آئی ایم ایف کے طے کردہ کم مدت والے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں۔ نئے طے کیے گئے لانگ ٹرم اہداف کیسے حاصل ہوں گے؟سال 2021 میں پاکستان نے چھ فیصد کی شرح نمو حاصل کی تھی، لیکن وہ مصنوعی گروتھ تھی اور تجارتی خسارہ تاریخی سطح پر بڑھ گیا تھا، جس کا ملک کو نقصان ہوا۔ اب وہ مصنوعی گروتھ بھی حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں۔ پانچ سالوں میں شرح نمو چھ فیصد رکھنے کا ہدف ہے، جبکہ
موجودہ حالات یہ ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 0.92 فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔’جو حالات چل رہے ہیں، ان میں جی ڈی پی 375 سے کم ہو کر 350 تک تو جا سکتی ہے، لیکن بڑھ نہیں سکتی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ اعدادوشمار کی بنیاد پر ترقی کے اندازے لگانا درست نہیں ہے۔ مہنگائی میں کمی کی وجہ عام آدمی کی قوت خرید میں کمی کو ظاہر کرتی ہے، اور جہاں تک اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بات ہے تو آج اسٹاک مارکیٹ جی ڈی پی کا صرف 12 فیصد ہے، جبکہ سال 2007 میں اسٹاک مارکیٹ جی ڈی پی کا تقریباً 50 فیصد تھی۔ یہ پیالی میں طوفان لانے کے مترادف ہے۔ چیئرمین ایپٹما کامران ارشد نے کہاکہ ’چند ماہ میں تقریباً 40 فیصد سپننگ یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ پچھلے دو سال سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ تین ارب ڈالر کم ہوئی ہیں۔ 50 فیصد سے زیادہ کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ٹیکسٹائل سیکٹر کو گیس کی فراہمی بند کی جا رہی ہے۔ اگر حالات یونہی چلتے رہے تو پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں ایکسپورٹس 30 سے 60 ارب ڈالرز بڑھانے کا ہدف حقیقت سے زیادہ افسانہ دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای پاکستان کے تحت فری لانسنگ اور آئی ٹی کی برآمدات5 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ گزشتہ مالی سال کی آئی ٹی برآمدات تقریباً 3 ارب ڈالر ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی بندش بڑا مسئلہ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے آئی ٹی کمپنیاں ویتنام اور دبئی منتقل ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 22 لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جبکہ بینک اکاؤنٹس صرف 38 ہزار کے ہیں۔ ان حالات میں آئی ٹی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے‘ انرجی کے شعبے میں بہتری کے لیے بھی دعوے کیے گئے ہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گی جب آئی پی پیز جیسے مہنگے منصوبوں سے جان چھڑائی جائے اور ملک کو ہنگامی بنیادوں پر سولر انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔ سولر پر ایک یونٹ 12 روپے کا پڑتا ہے اور آئی پی پیز سے ایک یونٹ کا خرچ تقریباً 80 روپے ہے۔ اس کے لیے سیاستدانوں، خصوصی طور پر حکمرانوں، کو بھی قربانی دینا ہو گی کیونکہ آئی پی پیز میں سب سے بڑا شیئر انہی کا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے جسارت کے سوال ” اُڑان پاکستان حکومتی پروگرام حقیقت یاافسانہ ؟ کے جواب میں بتایا کہ ’’اڑان پاکستان ‘‘پروگرام ایک ہوائی فائر ہے۔ یہ صرف ایک پریزنٹیشن تھی۔ کن بنیادوں پر یہ اہداف طے کیے گئے، آئی ایم ایف کا اس پر کیا ان پٹ لیا گیا ہے، کون سی مارکیٹ ریسرچ کی گئی ہے، اس بارے میں سرکار خاموش ہے۔ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 375 ارب ڈالر ہے، جسے دس سالوں میں ایک ٹریلین ڈالرز تک لے جانے کا ہدف ہے۔ ایک ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کے لیے آدھا ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری چاہیے۔ وہ کہاں سے اور کیسے آئے گی؟ پیٹرولیم وسی این جی سیکٹر کے معروف ایکسپرٹ ملک خدا بخش نے جسارت کے سوال ” اُڑان پاکستان حکومتی پروگرام حقیقت یاافسانہ ؟ کے جواب میںبتایا کہ ’اڑان پروگرام وزیراعظم محمد شہباز شریف کے اعلان کردہ ملک کی پائیدار ترقی کے حامل پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبے ”اڑان پاکستان” کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اور اس منصوبے کو ملکی معیشت کی ترقی کا ضامن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ٹیکس کی شرح اور تعداد کم کرنے سے نہ صرف ریونیو زیادہ ملے گا بلکہ پاکستان کو آگے لے جانے میں مدد مل سکے گی۔ ملک خدا بخش نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیراعظم کی ملک کیلئے زیادہ ریؤنیو حاصل کرنے کی یہ سوچ مثبت ہے کہ ٹیکس کی شرح میں 10 سے 15 فیصد کمی کردی جائے تو ٹیکس چوری میں بھی کمی ہو گی ٹیکس دینے والوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر ملک کے ادارے اور حکومت مل کر کام کر تے رہیں تو کامیابی توقعات سے بھی پہلے حاصل ہو جاتی ہے۔