محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 17 ویں برسی (گڑھی خدا بخش لاڑکانہ) کے مرکزی جلسے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے اپنی تقریروں میں بڑے معنی خیز جملے ادا کیے، جن کا ملکی و قومی مفاد میں تجزیہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔ بلاول صاحب نے کہا ’’ان کی خواہش ہے کہ کوئی مسلمان ملک ایٹمی طاقت نہ ہو، عمران بہانا پاکستان کا میزائل پروگرام نشانہ، کنالوں کی حکومتی پالیسی پر سخت اعتراض ہے‘‘۔ جبکہ بلاول صاحب کے والد محترم صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’عوام کا پانی اور گیس کہیں نہیں جائے گا۔ صوبوں کو حق ملے گا۔ عوام گھبرائیں نہیں سب کو دیکھ لوں گا‘‘۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بلاول صاحب نے امریکا کے حوالے سے جو بات کی بالکل درست کی کہ کوئی مسلمان ملک ایٹمی طاقت نہ ہو اور دوم یہ کہ عمران بہانہ ہے اصل نشانہ پاکستان کا میزائل پروگرام ہے۔ ہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین صاحب کے مذکورہ بیان یا تجزیے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں واقعی امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرانے کے لیے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے جس کے لیے ممکن ہے کہ امریکا عمران خان کی آڑ میں پاکستان کے میزائل اور بعدازاں ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانا چاہتا ہو۔ جناب بلاول زرداری پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے جس ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی وہ اِس کی حفاظت کریں کیوں کہ ایٹمی پروگرام جہاں قوم کی امانت ہے وہیں پر بھٹو صاحب کی شہادت کی ایک وجہ بھی ہے۔ تاہم بلاول زرداری کا ایک جملہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ’’کٹھ پتلیاں ایٹمی اثاثے بیچنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ کٹھ پتلیاں کون ہیں، کیا ایٹمی اثاثوں کو بیچنا اِن کے بس کی بات ہے؟ ایٹمی اثاثوں پر سودے بازی کرنا اپوزیشن میں بیٹھے کسی سیاستدان یا کسی صوبائی حکومت کے بس کی بات تو نہیں ہے بلکہ ایسا کام تو وہی پارٹی یا سیاستدان کرسکتے ہیں کہ جو وفاقی حکومت میں موجود ہوں۔ اِس طرح سے اگر دیکھا جائے تو موجودہ ’’مخلوط حکومت‘‘ میں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) شامل ہیں۔ (ن) لیگ کے وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کا صدر آصف علی زرداری ہے، لہٰذا اِس طرح کے بااختیار اقتدار میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بیچنے کی تیاریاں کون کرسکتا ہے؟ کیا بلاول صاحب اپنے ہی وزیراعظم اور صدر کی طرف اشارہ کررہے ہیں یا اِن کا ہدف اور مقصد کوئی اور ہے؟
بہرحال قوم یہ ضرور معلوم کرنا چاہتی ہے کہ چیئرمین صاحب کس کو ’’کٹھ پتلیاں‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ مزید برآں آپ کا یہ کہنا کہ کنالوں کی حکومتی پالیسی پر سخت اعتراض ہے، ناکافی الفاظ ہیں کیونکہ پورا صوبہ سندھ دریائے سندھ میں مزید 6کنالیں نکالنے پر سراپا احتجاج ہے، جبکہ مرکز میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ بلاول صاحب کو تو واضح الفاظ میں کہنا چاہیے تھا کہ دریائے سندھ سے مزید کنال نکالنے کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ یہ بات بھی بتائے دیتے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت نے اپنا فیصلہ فوری طور پر واپس نہ لیا تو پیپلز پارٹی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہونے سمیت دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے، مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ دریائے سندھ سے کنال نکالنے والوں کو اپنا کام جاری رکھنے اور اِس طرح سے اِن کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی اپنا کام جاری رکھنے کا راستہ دیا۔
علاوہ ازیں صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے جب یہ کہا کہ عوام کا پانی اور گیس کہیں نہیں جائے گا، صوبوں کو اُن کا حق ملے گا تو اِس کا مطلب کیا ہوا۔ مطلب تو یہ ہوا کہ وہ اپنے صاحبزادے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے مؤقف کی مخالفت کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر عوام کا پانی اور گیس کہیں نہیں جائے گا نہ تو عوام سے وعدہ کیا کہ پانی اور گیس آپ کو فلاں وقت تک مل جائے گا اور نہ ہی انکار کیا کہ نہیں ملے گا بلکہ اپنے صاحبزادے کی طرح پانی، گیس کا مطالبہ کرنے اور نہ دینے والوں کو ایک ہی حالت میں جوں کا توں چھوڑ دیا۔
صدر آصف علی زرداری کا یہ جملہ بہت اہم ہے کہ ’’عوام پریشان نہ ہوں سب کو دیکھ لوں گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو مرکز کی مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے بعد صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں مکمل اقتدار حاصل ہے پھر عوام پریشان کیوں ہوں گے، کہیں ایسا تو نہیں کہ زرداری صاحب عوام کی پریشانی کی بات کرکے خود اپنی گھبراہٹ اور پارٹی کی پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ’’سب کو دیکھ لوں گا‘‘ کا جملہ یا اشارہ کس کے لیے؟ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ زرداری صاحب نے اِس سے پہلے ایک مرتبہ جرنیلوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اینٹ سے اینٹ بجادوں گا‘‘ جس پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے زرداری صاحب سے حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا واقعی اُن میں اِتنا دم ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے تو زرداری صاحب اچانک دبئی جا نکلے اور پھر واپس آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تب سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کی منت سماجت کی گئی جس کے بعد جمالی صاحب نے ’’GHQ‘‘ جا کر جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور زرداری صاحب کو معافی دلائی۔ بہرحال اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد اب پھر یہ کہنا کہ سب کو دیکھ لوں گا۔ اللہ خیر کرے کون کس کو دیکھ لے گا، ہم بھی دیکھیں گے۔
آخری بات یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی گڑھی خدا بخش کی تقریروں کا لب و لہجہ اور الفاظ کا استعمال ’’مخلوط حکومت‘‘ کے لیے کوئی نیک شگون معلوم نہیں ہورہا۔ اللہ پاک وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین