ہماری قومی سیاست ایک عجوبہ ہے!

289

مفتی منیب الرحمن
اس وقت پاکستان میں جو نظامِ ریاست وحکومت چل رہا ہے، بلاشبہ وہ ایک عجوبہ ہے۔ ہمارے ہاں نظامِ ریاست وحکومت میں ہائی برِڈ کی اصطلاح 2018 سے رائج ہے، اس کی شروعات 2011 سے ہوئیں، جب مقتدرہ نے گزشتہ تین عشروں سے باری باری اقتدار میں آنے والی دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بدعنوان اور معتوب قرار دیا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایک تیسری سیاسی جماعت تشکیل دے کر انہیں اقتدار سے باہر رکھنے کی حکمت ِ عملی وضع کی۔ یہ تیسری سیاسی جماعت پی ٹی آئی تھی، مقتدرہ کو ایک پرکشش شخصیت درکار تھی، جس کی طرف عوام کو مائل کیا جاسکے اور انہیں عمران خان کی صورت میں وہ شخصیت مل گئی۔ خان صاحب نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں بھی اُن کا ساتھ دیا اور اُن کا زعم یہ تھا کہ وہ انہیں اقتدار میں لائیں گے، مگر وہ پرویز مشرف کے سانچے میں فٹ نہ ہوئے اور انہیں ایک مصنوعی سیاسی جماعت مسلم لیگ ق بنانا پڑی۔ یہ جماعت قابل ِ انتخاب لوگوں پر مشتمل تھی، ان کے پاس کوئی پرکشش قیادت نہیں تھی، اس قیادت کی خوبی یہ تھی کہ ہمیشہ مقتدرہ کے لیے قابل ِ قبول رہی۔ لیکن پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ مقبولِ عام نہ بن سکی اور 2008 کے انتخابات میں وہ اقتدار سے باہر ہوگئی۔

آخر ِ کار مقتدرہ کی نگاہِ انتخاب خان صاحب پر پڑی اور 2011 میں مینارِ پاکستان پر اُن کی لانچنگ ہوئی، پھر 2014 کو پی ٹی آئی کا طویل دھرنا ہوا، اُس کے بعد عدالت عظمیٰ کی مدد سے نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کا بندوبست ہوا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود 2018 میں عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے کے لیے آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھانا پڑا اور ہائی برِڈ نظامِ حکومت عمل میں آیا۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مقتدرہ بڑی چاہ کے ساتھ جو پروڈکٹ بناتی ہے، آخر میں وہ اُن کے قابو میں نہیں رہتی اور اُن کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے، الطاف حسین اور عمران خان اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ چنانچہ مقتدرہ کو اپنے ہی بنائے ہوئے ہائی برِڈ نظام کی بساط 2022 میں لپیٹنا پڑی، عمران خان نے کہہ دیا تھا: اقتدار سے نکلنے کے بعد میں زیادہ خطرناک ہوجائوں گا اور انجامِ کار ایسا ہی ہوا۔ پھر 2024 میں ایک نیا ہائی برڈ نظام وجود میں آیا، اس کو بھی مقتدرہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔

بظاہر یہ نظام دو بڑی جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور بعض چھوٹی جماعتوں کے اشتراک سے قائم ہوا، دونوں بڑی جماعتیں اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ ن لیگ کو وزارتِ عظمیٰ اور پیپلز پارٹی کو صدارت، سینیٹ کی چیئرمینی اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا منصب ملا، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو ووٹ دیے۔ البتہ ملامت زیادہ ن لیگ کے حصے میں آئی، کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ میں مستحکم ہے اور بظاہر مستقبل ِ قریب میں بھی اُس کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے، مزید یہ کہ بلوچستان کی حکومت بھی اُسے تحفے میں مل گئی ہے۔ ن لیگ کے حصے میں وفاق اور پنجاب کی حکومتیں آئیں۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے جو مصنوعی نظام وجود میں آتے ہیں، وہ مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوتے، نیز پوری طرح ہوم ورک بھی نہیں کیا ہوتا اور نہ ایک ساتھ چلنے کے لیے کوئی دیرپا فارمولا وضع ہوتا ہے، بس حالات کے جبر کے تحت نہایت عُجلت میں یہ نظام قائم ہوتے ہیں اور اس شعر کا مصداق ہوتے ہیں:

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ھَیُولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

نوٹ: ’’ھَیُولیٰ‘‘ بنیادی طور پر فلسفے کی اصطلاح ہے، ہمارے اردو داں طبقے کے اکثر پڑھے لکھے لوگ اس کا تلفظ ’’ھَیْولیٰ‘‘ کرتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، قائد اللغات میں ’’ھَیُولیٰ‘‘ کی تعریف یہ ہے: ’’ہرچیز کا مادّہ، ماہیت، اصل‘‘۔ قدیم فلسفے میں ھَیُولیٰ کی تعریف یہ تھی: ’’ایسی ماہیت ِ اصلیہ، جوہر یا روح جو مختلف صورتوں میں متشکل ہوسکتی ہو، جیسے: انسان کی حقیقت ’’حیوانِ ناطق‘‘ ہے، جو مختلف انسانی صورتوں میں متشکل ہوتی ہے یا ظہور میں آتی ہے‘‘۔ سو اس طرح کے اتحادوں میں ہمیشہ خرابی کی صورت مُضمَر (پوشیدہ) ہوتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ایسے اتحاد وقتی ضرورت کے تحت عُجلت میں وجود میں آتے ہیں، ان کی تشکیل کے لیے ضروری تیاری کی جاتی ہے، نہ ان کے ’مالہٗ وما علیہ‘ یعنی مثبت اور منفی پہلوئوں پر تفصیلی غور ہوتا ہے اور نہ ممکنہ پیش آنے والے اختلافات کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی وضع ہوتی ہے، یہی خرابی موجودہ اتحادی حکومت کی تشکیل میں مُضمَر ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے وہ مفادات میں تو حصے دار بنے، لیکن ملامت سے اپنا دامن بچائے رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وفاقی حکومت میں تو شامل نہیں ہونا چاہتے، لیکن پنجاب کی انتظامیہ میں اپنا عمل دخل چاہتے ہیں، یعنی ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کے تقرر، تبادلے اور ترقیاتی کاموں میں معتدبہ حصہ چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ اپنے لیے اپنے انتخابی حلقوں کو مستحکم کرسکیں۔

اس وقت پی ٹی آئی ابتلا اور مسلم لیگ ن دبائو میں ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی سیاست سے خوب لطف اندوز ہورہی ہے، وہ بیک وقت اقتدار اور اختلاف کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کی کامیابیوں میں حصے دار اور ناکامیوں سے دست بردار ہیں۔ بلاول زرداری سیاست میں کافی حد تک پختہ کار ہوچکے ہیں، وہ سیاسی مسائل پر بات کرتے ہیں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر ان کا خطاب بڑا جامع اور کردار مؤثر تھا، جبکہ پی ٹی آئی گریہ وزاری میں مصروف ہے اور مسلم لیگ ن کے اہم ذمے داران منظر پر کم نظر آتے ہیں۔ آئینی اعتبار سے صوبائی گورنر وفاق کے نمائندے ہوتے ہیں، مگر چونکہ دوصوبوں کی گورنری کوٹے کے طور پر پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہے، لہٰذا وہ بھی خوب سیاست کر رہے ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ گورنر سندھ کو روز کی بنیاد پر ٹی وی پر درشن چاہیے، لہٰذا وہ اپنے لیے ہلکی پھلکی سرگرمیاں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ الغرض یہ ایک اتحادی حکومت ہے، لیکن اتحاد سے زیادہ اختلاف نمایاں ہے، قرآنِ کریم نے منافقین ِ مدینہ کی قلبی کیفیات کو بیان کیا ہے کہ وہ بظاہر مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے، لیکن یہودِ خیبرکے ساتھ ساز باز بھی رکھتے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی قلبی کیفیات کو ان کلمات میں بیان فرمایا ہے: ’’(ظاہر ِ حال کو دیکھ کر) تم انہیں متحد گمان کرو گے، حالانکہ ان کے دل بٹے ہوئے ہیں‘‘۔ (الحشر: 14) بظاہر ہمارے سیاسی اتحاد بھی ایسی ہی کیفیات کے مظہر ہوتے ہیں، ایک طرف اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ ملے اور دوسری طرف عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے اختلاف کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا اتحاد مثبَت بنیادوں پر نہیں بلکہ منفی بنیادوں پر ہوتا ہے، یعنی ایک مشترکہ دشمن کو زیر کرنا یا اُس کی زَد سے بچائو مقصود ہوتا ہے۔

ہونا یہ چاہیے کہ اتحاد کے تمام فریق مل کر حکومت کا ایجنڈا تیار کریں اور پھر اُس کو کامیاب بنانے میں جُت جائیں، اس کا دفاع کریں، کامیابی ملے تو اُس کے ثمرات میں حصہ دار ہوں اور اگر خدانخواستہ ناکامی مقدر ہو تو اُس کی ذمے داری بھی کھلے دل سے قبول کریں، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی واضح مثال نجکاری کا عمل ہے، حکومت کے زیر ِ اہتمام صنعتی اور کاروباری ادارے مسلسل خسارے میں جارہے ہیں، ان اداروں کی نجکاری کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کا دبائو بھی ہے۔ لیکن جو فریق حکومت میں ہے، وہ جب نجکاری کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو دوسرے فریق مزاحم ہوجاتے ہیں۔ اس سے اُن اداروں کے ملازمین کو بھی نجکاری کی مزاحمت کا حوصلہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، پاکستان ریلوے اور اس جیسے خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری نہیں ہوسکی۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے ساتھ حقیقی پیداوار اور استعمال شدہ توانائی کی قیمت وصول کرنے کے بجائے کُل پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ادائیگی کے جو معاہدے ہوئے ہیں، قومی معیشت اُن کے بوجھ تلے سسک رہی ہے، لیکن حکومت آج تک اس مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام ہے، اس میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ تمام بڑی جماعتیں شامل ہیں۔