کسی بھی ملک کا برانڈ اس ملک کی شناخت ہوتا ہے، وہ اس ملک کی تاریخ، ثقافت اور قدرو قیمت کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، یہ برانڈ ملک کی اقتصادی ترقی، روزگار، تجارت اور سیاحت اور سرمایہ کاری کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور یہی اس کے قومی فخر کی تصویر کشی کرتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے برانڈز کی شناخت کے لیے تیزی سے قدم بڑھائے اور ملک کے تاجر اس جانب پیش رفت میں مصروف ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت بھی مضبوط بنائی جائے، اور اپنا برانڈ جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی روزگار اور برامدات میں اضافہ ہوگا جس سے معیشت مضبوط ہوگی۔
پاکستان بزنس فورم نے یہ مشکل بھی حل کردی، ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جس سوچ کی ضرورت ہوتی ہے بزنس فورم میں وہ بھرپور طریقے سے موجود ہے، سو اس کے منتظمین نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا اور قوم کی رہنمائی کا فرض بھی ادا کردیا، 18 اور 19 جنوری کو ایکسپو میں میرا برانڈ پاکستان کے عنوان سے ایک نمائش کا اہتمام کیا ہے جس میں پاکستان کے اپنے برانڈز کو نمایاں کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسرا موقع ہے جب بزنس فورم نے یہ کام کیا ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں بھی پہلی میرا برانڈ پاکستان نمائش کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ آخر میرا برانڈ پاکستان جیسی نمائش کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اس کی ضرورت یوں پڑی کہ ہمارے ملک میں لوگوں کو اس بارے میں پتا ہی نہیں کہ کون سی چیزیں ہماری اپنی ہیں اور کون سی چیزیں باہر کی یا غیر ملکی ہیں۔ یوں بھی گزشتہ سال غیرملکی مال کے بائیکاٹ کی مہم چلنا شروع ہوئی تھی، لیکن غیرملکی مال کے بائیکاٹ سے قبل اس کا متبادل پاکستانی مال تو متعارف کرایا جانا تھا، سو یہ کام پاکستان بزنس فورم نے کیا اور خوب کیا، اور اب اسے خوب تر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جب ایسی کوئی مہم چلتی ہے تو طرح طرح کے سوالات اٹھتے ہیں جیسے یہ کہ آخر ہمیں غیر ملکی چیزیں استعمال کرنے میں مسئلہ ہی کیا ہے؟ مسئلہ تو کوئی نہیں لیکن اگر کوئی شے اپنے ہی ملک کی ایک اچھے معیار کے ساتھ میسر ہو تو آخر دوسرے ملک کی چیز استعمال ہی کیوں کی جائے، اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں اپنے ملک کی مصنوعات اور ہر برانڈ کو خود پروموٹ کرنا چاہیے۔
ساتھ ہی ساتھ ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم غیر ملکی خصوصاً ایسے ممالک کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں شریک ہیں تو اس طرح ہم بھی اس کام میں شریک ہوجاتے ہیں اور جب اپنے ملک کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں تو ہم مسلمانوں پر اس ظلم اور ان کے بہتے خون میں اپنا حصہ نہیں ملا رہے ہوتے۔ جیسے کہ آج کل مسلم اور غیر مسلم ہر کوئی بائیکاٹ کر رہا ہے ان مصنوعات کا جو اسرائیل کی ہیں یا کسی ایسے ملک ہیں جو اسرائیل کی اس جنگ میں مدد کر رہا ہو۔ تو مسلم ہونے کے ناتے ہمارا تو اولین فرض ہے کہ اپنے ملک کی مصنوعات کو فروغ دیں۔ پاکستان بزنس فورم نے ملکی تاجروں اور مصنوعات کے فروغ کے لیے پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے، اب تاجروں کی اولین ذمے داری ہے کہ اس نمائش میں اپنی مصنوعات کا بھرپور تعارف کرائیں اور ہمارا خصوصاً خواتین کا یہ فرض ہے کہ اپنی قومی مصنوعات کے فروغ میں بھرپور تعاون کریں، ہر غیر ملکی چیز کا متبادل تلاش کریں اور اسے اپنی گروسری لسٹ میں شامل کرلیں۔
تین باتیں زیادہ اہم ہوتی ہیں ایک معیار، مقدار اور پھر قیمت ان تینوں باتوں پر ہمارے تاجروں کو توجہ دینی ہوگی۔ بڑا مسئلہ معیار کا ہوتا ہے، مرد اور عورتیں اس معاملے میں خاصے محتاط ہوتے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہمارے برانڈز کا معیار اتنا برا ہو کہ ہم اسے استعمال ہی نہ کر سکیں یا ہمیں اپنے پیسوں کا ضیاع لگے۔ اب بات اگر پیسوں کی ہو ہی رہی ہے تو یہ بھی جان لیجیے کہ زیادہ تر پاکستانی برانڈ کی قیمت ایسی ہے کہ گاہک کی جیب پر بھاری نہیں پڑے گی، ہاں البتہ کچھ ایسے برانڈز ہیں جن کی قیمت نسبتاً زیادہ ہے یا غیر ملکی پروڈکٹس جتنی ہے۔ انہیں اس طرح اشتہار بازی نہیں کرنی ہوتی جس طرح غیر ملکی کمپنیاں کرتی ہیں، لہٰذا پاکستانی کمپنیاں اپنے منافع میں کمی کرکے قیمت کم کرکے فروخت بڑھا سکتی ہیں، فروخت بڑھے گی تو منافع بھی بڑھے گا۔ ساتھ ہی معیار بھی بڑھائیں۔
اگر ہم لوگ روز مرہ کی چیزوں پر نظر ڈالیں تو ہمارے گھروں میں ہر روز کھانے والی چیز ’’بسکٹ‘‘، ہے جو بسکونی جیسا برانڈ ایک اعلیٰ معیار کے ساتھ فراہم کرتا، اور ساتھ ہی ساتھ ان کی قیمت گاہک کی جیب پر بھاری بھی نہیں پڑتی۔ وہ اگر مقدار بڑھادیں تو فروخت زیادہ ہوگی۔ اسی طریقے سے کافی کی اگر بات کی جائے تو Chase اور imtiaz جیسی بڑی سپر مارکیٹس نے اپنے ہی برانڈ کے نام سے کافی نکالی ہے جن کا معیار میرے اور بہت سے گاہکوں کے تجربے کے لحاظ سے غیر ملکی برانڈ جیسا یا اس سے بھی اچھا ہے۔
اب جب کافی کی بات ہو ہی رہی ہے تو کیوں نہ چائے کی پتی کے برانڈز کے بارے میں بھی بات کر لی جائے کافی کی طرح چائے پتی کے بھی پاکستانی برانڈز ہیں جیسے کہ وائٹل، ٹپال دانے دار، حتیٰ کہ Chase گروپ کی بھی اپنے نام سے چائے کی پتی ہے۔ اسی طرح صابن میں تو وائٹل، کیپری، تبت اور ہمالیہ جیسے مشہور برانڈز پاکستانی برانڈز ہی ہیں۔ اور چیز گروپ اور صوفی کے واشنگ پاؤڈر بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ اور دوا سازی میں پاکستانی کمپنیوں کا ثانی نہیں، پاکستانی دوائیں لیں زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی اور قومی معیشت بھی مستحکم ہوگی، صرف یہی نام پاکستانی برانڈز نہیں ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ برانڈز ہیں جو کہ آپ کو ایکسپو میں 18 اور 19 تاریخ کو دیکھنے کو ملیں گے تو آئیے اس ایونٹ کا حصہ بنیں۔ پھر مزا آئے گا پاکستانی برانڈز کا۔
ایک اور بات حکومت سے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو بھی تیز کیا جائے، اور بڑے تاجروں کے ساتھ ایس ایم ایز کو بھی سہولتیں دی جائیں۔ ساتھ ہی سیاسی استحکام پیدا کیا جائے اور مثبت سوچ اور مثبت مقابلے کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔