کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو اپوزیشن کی شدیدہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا، ایم کیو ایم کے ارکان سندھ اسمبلی انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں کراچی کے طلبہ کی بڑی تعداد کو فیل کردینے کے معاملہ پر بات کرنا چاہتے تھے قائم مقام اسپیکر نے فوری اجازت نہ دی تو اپوزیشن ارکان بپھر گئے اور انہوں نے حکومت سندھ کے خلاف شدید نعرے بازی اور احتجاج شروع کردیا۔اپوزیشن کے شور شرابے سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ایم کیو ایم کے ارکان نے بطور احتجاج ایوان کی کارروائی کے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس کافی عرصے بعد جمعہ کو طلب کیا گیا تھا اور آج اجلاس کا پہلا روز تھا ، ڈپٹی اسپیکر نوید انتھونی کی زیر صدارت ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو تلاوت اور نعت خوانی کے بعد اپوزیشن ارکان نے قائم مقام اسپیکر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا جس پر قائم مقام اسپیکر نے ارکان سے کہا کہ وہ وقفہ سوالات شروع ہونے دیں اس کے اختتام پر جو بات کرنی ہے وہ کرلیں۔اس موقع پر اسپیکر نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے متعلق وقفہ سوالات شروع کرنے کے لئے کہہ دیا۔
وزیر ایکسائز مکیش کمار چالہ نے ابھی سوالات کے جواب دینے شروع ہی کئے تھے کہ اپوزیشن کی نشستوں سے یہ اصرار شروع ہوگیا کہ پہلے انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔اسپیکر نے ایم کیو ایم کی خاتون رکن ڈاکٹر فوزیہ سے کہا کہ اگر وہ وقفہ سوالات میں سوال نہیں پوچھنا چاہتیں تو ہم آگے بڑھ جاتے ہیں جس پر وہ بولیں کہ ہم پہلے کراچی کے اہم مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔اسپیکر نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو بات کرنے کی جازت دینے سے انکار نہیں کررہا ہوں لیکن بعد میں بات کرلیجئے گا ۔اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں زبردست شور شر اور نعرے بازی شروع کردی ۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی اعجاز الحق نے کہا کہ شہری سندھ کے بچے رو رہے ہیں ،جو بچے میٹرک میں اے ون میں پاس ہوئے وہ انٹر میں فیل کیسے ہوگئے اور اتنے برے نتائج کیوں آئے ہیں۔میڈیکل کے نتائج بھی ٹھیک نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ کراچی کے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے بچوں کو پیچھے کیوں دھکیلا جارہا ہے ؟۔ وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجارنے ایم کیو ایم کے رکن اعجازالحق سے کہا کہ ان کا پوائنٹ ایوان میں سامنے آگیا ہے اب اپنی نشست پر بیٹھ جائیں لیکن وزیر پارلیمانی امور کی بات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور ایم کیو ایم ارکان کی جانب سے زبردست نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا ۔ایوان میں شور شرابے کے دوران وزیر ایکسائز نے بتایا کہ پراپرٹی ٹیکس کو اب محکمہ ایکسائز کی فہرست سے نکال دیا گیاہے اور یہ ٹیکس اب بلدیاتی کو نسل وصول کریں گی ۔ان کا کہنا تھا کہ 2023 سے پراپرٹی ٹیکس ضلعی کونسلوں کے زمہ دے دیا گیا ہے۔
ایوان کی کارروائی کے دوران وزیر پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ فیڈرل ازم کا بل 2024 ایوان میں پیش کیا جسے قائم مقام اسپیکر نے مزید غور کے لئے متعلقہ مجلس قائمہ کے سبرد کردیا جو دس روز میں اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے گی ۔ ایوان نے اپنی کارروائی کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن ہیر اسماعیل سوہو کی ایک تحریک التوا جو صوبے میں موبائل فون کال کے معیار اور انٹر نیٹ سروسز کی بہتری کو یقینی بنانے سے متعلق تھی بحث کے لئے منظور کرلی ایوان میں اس تحریک پر بحث منگل کو پرائیوٹ ممبرز ڈے کے موقع پر ہوگی اور اس مقصد کے لئے ایک گھنٹے کا وقت بھی مختص کردیا گیا ہے ۔ایوان کی کارروائی کے دوران پی پی کی خاتون رکن ماروی فصیح کی عدم موجودگی کے باعث ان کی جانب سے پیش کردی ایک تحریک استحقاق پر غور نہیں ہوسکا جو انہوں نے محکمہ اسپیشل ایجوکیشن کے ڈپٹی سکریٹری طہ فاروقی کی جانب سے ان کے ساتھ سخت اور جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر جمع کرائی تھی ۔ ایجنڈے کی تکمیل پر قائم مقام اسپیکر نے سندھ اسمبلی کااجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف علی خورشید ی نے کہا کہ اگر ایوان میں ہمیں عوامی مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو ایوان میں اسی طرح ہنگامہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم جس مسئلے پر بات کرنا چاہتے تھے وہ کراچی والوں کے لئے بہت اہم مسئلہ ہے لیکن حکومت سندھ اس معاملے سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی اس امید کے ساتھ ایوان میں آتے ہیں کہ ہمیں ہمارے حلقوں میں موجود مسائل پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج جو رویہ حکمرانوں نے رکھا وہ انتہائی افسوس ناک تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے اراکین کی اکثریت کا تعلق شہری سندھ سے ہے۔ لیکن افسوس کہ حکمرانوں کی جانب سے کراچی کے مسائل پر بات کرنے کی اجازت تک نہ دی گئی یہ رویہ قابل مذمت ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ایم کیو ایم کے اراکین کو بات کرنے کی اجازت نہیں ملی تو اس اسمبلی کا کیا فائدہ ؟ حکومت نے اپوزیشن کے تمام سوالات کو روند ڈالا۔ علی خورشیدی نے کہا کہ انٹر بورڈ کے نتائج آپکے سامنے ہیں، پچھلے آٹھ سالوں سے تمام بورڈز ایڈہاک پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیا چاہتی ہے کہ اس شہر کے بچے نہ پڑحیں؟ وہ جا کر سمندر میں ڈوب جائیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سندھ حکومت ٹیکنیکل طریقے سے شہری سندھ کے بچوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے وزرااور میئر کو شرم آنی چاہیے۔انہوں نے پہلے کراچی کا انفراسٹرکچر تباہ کیا اب یہاں کی تعلیم کو بھی برباد کرنے درپے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکمرانوں نے اپنا رویہ درست نہیں کیا تو احتجاج کریں گے، آج ٹوکن احتجاج تھا۔ وزیر اعلی سندھ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوامی مسائل حل کریں۔