قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس نازک تعلق کے بارے میں جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ حصولِ لذت کو اخلاقی ضابطے کے تناظر میں بطور اللہ تعالیٰ کی ایک آیت کی تعلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورئہ روم اور سورئہ نساء میں قرآن کریم شوہر اور بیوی کے تعلق کو جس اخلاقی اسلوب میں بیان کرتا ہے، وہ انسانی فکر کی پرواز سے بلند اور انسانی فکر کی رہنمائی کے لیے ہدایت و رہنمائی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کا اخلاقی اسلوب زندگی کے ہر عمل کے لیے اخلاقی ضابطے اور اصول فراہم کرتا ہے۔ اخلاقی اصول علومِ اسلامی کے تناظر میں اصول کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تطبیقی میدان میں احکام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی اخلاقی ضابطہ ہے کہ مثالی اسلامی معاشرے میں رشتۂ ازدواج اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم اس اخلاقی اصول کو کائنات اور مخلوقات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح نظامِ کائنات کو اخلاقی ضابطے پر چلانے کے لیے جوڑے پیدا کیے گئے۔ اسی تسلسل میں انسان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی نفس سے اس کا زوج (جوڑا) بنایا۔
گویا عالمِ انسانی ہو یا عالمِ حیوانی، دونوں میں زواج کا قائم کیا جانا ایک فطری، اخلاقی اور شرعی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت چونکہ انسانوں سے وابستہ ہے، اس لیے اس میں زمان و مکان کا تعین بھی کیا جانا ضروری ہے۔ سنت مطہرہ اس پہلو کی وضاحت و تشریح کرتی ہے کیونکہ سنت کو دو امتیاز حاصل ہیں۔ اوّلاً یہ کہ سنت تشریعی ہے، اور ثانیاً یہ کہ سنت تشریحی ہے۔ چنانچہ یوم الحساب جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں یہ بات شامل ہے کہ جوانی کس طرح گزاری؟ کیا عفت و عصمت کو برقرار رکھا؟ کیا جوانی کی تعمیری قوت کو معروف کی اشاعت کے لیے استعمال کیا؟ کیا جوانی میں مادی وسائل اور وقت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استعمال کیا، یا بے راہ روی اور عبث میں گزاری؟
جوانی، بلوغ اور عقل، ان سب کا قریبی تعلق ایک مومن کے جنسی معاملات کے ساتھ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عقلی رویے کا مطالبہ ہے کہ ایک شخص جوان ہو تو یا روزے رکھے یا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔ یہ بلوغ کا تقاضا ہے کہ اس سن کو پہنچے تو اس فکر میں نہ رہے کہ جب تک کثیرمالی وسائل کا مالک نہ ہو، نکاح سے دْور رہے۔ قرآن نے اس معاشی پہلو کا دوٹوک جواب دیا ہے کہ: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ (النور: 32) یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ مالی وسائل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کے لیے، اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے اگر یہ کام کیا جائے گا تو وہ اپنی رحمت سے مالی ضروریات پورا کرنے کا راستہ نکال دے گا۔ گویا اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں اس لیے منسلک نہ کرنا کہ ابھی تنخواہ کم ہے، کاروبار سے منافع کم آرہا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے، یہ اور اس قسم کے وہ تمام تصورات جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اسلام ان کو رد کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی آیت ان رواجی تصورات کی تردید کرتی ہے۔
جنس کے حوالے سے قرآن و سنت کے اخلاقی اسلوب کے الہامی اور اعلیٰ ترین ہونے کا احساس اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک محقق کلامِ الٰہی اور دیگر مذاہب کے اساطیر کا ایک تقابلی مطالعہ کرے۔ اساطیر نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت کی کتب مقدس میں جہاں ان مسائل کا ذکر ہے صرف انھیں ایک نظر دیکھ لیں تو زمین و آسمان کا فرق کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
اس بنا پر ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام جنسی مسائل پر ایک اعلیٰ الہامی اخلاقی اسلوب اختیار کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس اسلوب کی بنیاد پر تدریس و تعلیم میں مواد اور طریق تدریس ایجاد کیے جائیں۔ فقہ ان میں سے ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس کی تعلیم بہت سے جنسی مسائل سے، بغیر کسی لذتیت کے، زمینی حقائق سے ایک غیربالغ اہلِ ایمان مرد اور عورت کو ان مسائل سے آگاہ کرتا ہے جن کو آج کل اسکولوں میں جنسی تعلیم کے زیرعنوان سکھانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جو فی الواقع طلبہ و طالبات کو بجاے اخلاقی طرزِعمل اختیار کرنے کے فحاشی و عریانی اور بے شرمی کی طرف لے جانے کا ذریعے ہوگی۔ مغرب و مشرق میں جہاں کہیں بھی عمر کے اس مرحلے میں جب ایک بچہ اور بچی تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو نتائج تباہ کن ہی رہے ہیں۔ امریکی نصابِ تعلیم میں جنسی تعلیم کی شمولیت کے بعد جس تیزی سے غیراخلاقی جنسی تعلق، قبل از وقت ناجائز ولادت اور حمل کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہرصاحب ِ علم کے سامنے ہیں۔
اس لیے جنسی تعلیم کی اہمیت کو مانتے ہوئے اصل مسئلہ اسلوب کا ہے۔ اصل مسئلہ اسے اخلاقی ذمے داری سے منسلک کرنے کا ہے۔ اصل مسئلہ ایک پاکیزہ خاندان کے قیام کا ہے، جبکہ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ مستعار اور استعمال شدہ فکر کو اختیار کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر وہ موضوع جو مغرب و مشرق کے دانش ور اْٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کو ’ترقی پسندی‘، ’روشن خیالی‘ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ایک قومی فریضہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اور غیرحکومتی مدارس میں اسلامیات کے نصاب کو، نظرثانی کے بعد بطور لازمی اور قابلِ امتحان مضمون کے جس کا اثر نتائج میں ظاہر ہو، اسلام کے جامع تصور کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس جامع نصاب میں جنسی اخلاقیات بھی بطور ایک باب کے ہو اور وہ بغیر کسی مانع حمل ذرائع کی تعلیم کے جنسی ذمے دارانہ رویے پر روشنی ڈالے۔