حالتِ حیض میں غسلِ میت

سوال: میرے دو سوال ہیں۔ برائے کرم ان کے جواب مرحمت فرمائیں:
1۔ کیا کوئی حائضہ عورت میت کو غسل دے سکتی ہے؟
2۔ کہا جاتا ہے کہ غسل میت کے بعد غسل دینے والے مرد یا عورت کو خود بھی غسل کرلینا چاہیے۔ اگر بیک وقت کئی میتوں کو غسل دینا ہو تو کیا ہر میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا ہوگا، یا تمام میتوں کو غسل دینے کے بعد آخر میں غسل کرنا کافی ہوگا؟
جواب: میت کو غسل دینے والے پاکی کی حالت میں ہوں تو بہتر ہے، ورنہ وقتِ ضرورت جنبی شخص اور حائضہ کا غسل کرانے والوں میں شامل ہونا جائز ہے۔
حیض ایک طبیعیاتی حالت ہے، جس سے بالغ عورت ہر ماہ چند ایام دوچار ہوتی ہے۔ ان ایام میں اس کی شرمگاہ سے فاسد خون نکلتا ہے۔ لیکن یہ اس کی صحت کی علامت ہے۔ اس حالت میں بعض کاموں کی انجام دہی اس کے لیے ممنوع ہے، مثلاً نماز، روزہ، طواف وغیرہ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حالتِ حیض میں اس کے ہاتھ پیر اور پورا جسم ناپاک رہتا ہے اور اس مدت میں اگر وہ کسی چیز کو ہاتھ لگادے تو وہ بھی ناپاک ہوجائے گی۔

ایک مرتبہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ حیض کی حالت میں تھیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان سے مسجد سے تولیہ اٹھالینے کو کہا۔ انھوں نے عرض کیا: میں حیض سے ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارا حیض تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے‘‘۔ (مسلم)
ام المومنین سیدہ میمونہ بنت الحارثؓ، سیدنا ابن عباسؓ کی خالہ تھیں۔ ایک مرتبہ وہ ان کے پاس اس حالت میں گئے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ٹوکا تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: ’’میری بیوی ہی میرے بالوں میں کنگھی کرتی تھی۔ آج کل وہ حیض سے ہے‘‘۔ انھوں نے فرمایا: ’’بیٹے! حیض ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ ہم امہات المومنین میں سے کوئی حیض سے ہوتا تھا۔ رسولؐ اس کے پاس جاتے تھے تو وہ آپ کا ہر کام کرتی تھی‘‘۔ (مسند احمد، نسائی)
فقہا نے حائضہ عورت کے ذریعے میت کو غسل دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ عطا بن ابی رباح کا قول ہے: ’’میت کو جنبی یا حائضہ غسل دیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ سفیان ثوری، حسن بصری اور علقمہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ایک خاتون نے یہی مسئلہ ابو ثورؒ سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’حائضہ عورت کسی زندہ شخص کے بالوں میں کنگھی کر سکتی ہے اور اس کا سر دھلا سکتی ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے تو مردہ کو غسل دینا بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے‘‘۔

علامہ ابن رشد مالکیؒ نے امام مالکؒ کی یہ رائے نقل کی ہے: ’’حائضہ عورت کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (البیان والتحصیل)
امام نووی شافعیؒ فرماتے ہیں: ’’جنبی اور حائضہ بلا کراہیت میت کو غسل دے سکتے ہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ وہ دونوں دوسرے انسانوں کی طرح طاہرہ ہیں‘‘۔ (المجموع)
علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے لکھا ہے: ’’ہمیں اس معاملے میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے کہ جنبی اور حائضہ میت کو غسل دے سکتے ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ غسل و تکفین کے کاموں کو انجام دینے والا طاہر ہو۔ یہ طریقہ زیادہ مکمل اور زیادہ اچھا ہے‘‘۔ (المغنی)
بعض روایات اور بعض فقہا کے اقوال میں جنبی اور حائضہ کے ذریعے میت کو غسل دینے کو مکروہ کہا گیا ہے۔ ان سے مراد وہ جنبی ہے جس نے محض سستی کی وجہ سے غسل نہ کیا ہو اور وہ عورت ہے جس نے خون بند ہوجانے کے بعد بھی محض سستی کی وجہ سے غسل نہ کیا ہو۔

فقہ حنفی میں اگر میت کو غسل دینے کے لیے حیض سے پاک کوئی عورت موجود ہو تو حائضہ عورت کا اسے غسل دینا مکروہ ہے، کوئی موجود نہ ہو تو گنجائش ہے۔ (فتاویٰ ھندیہ، کتاب الصلاۃ)
جہاں تک دوسرے مسئلے (یعنی میت کو غسل دینے والے کا خود غسل کرنا) کا تعلق ہے تو بعض احادیث میں اس کا حکم ملتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص کسی میت کو غسل دے اسے خود بھی غسل کرنا چاہیے‘‘۔ (ابوداؤد)
لیکن محدثین نے اس کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ بعض آثارِ صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ سیدنا ابن عباسؓ نے فرمایا ہے: ’’میت کو غسل دینے سے تمھارے لیے غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے کہ میت ناپاک نہیں ہوتی۔ تمھارا صرف اپنے ہاتھ دھولینا کافی ہے‘‘۔ (صحیح الجامع) اور سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم میت کو غسل دیتے تھے تو ہم میں سے بعض لوگ غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے‘‘۔ (احکام الجنائزللالبانی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے کے بعد آدمی کا خود غسل کرنا ضروری نہیں، ہاں مستحب ہے۔ کئی کو ایک ساتھ غسل دیا گیا ہو تو غسل کرانے والے کا آخر میں غسل کرلینا کافی ہے۔