قولِ کریم

118

’’قولِ کریم‘‘ (عزت واحترام والی بات) کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: 23 میں ہوا ہے: ’’ان سے احترام کے ساتھ بات کرو‘‘۔
یہ فقرہ اْس آیت کا حصہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کی تلقین کے معاً بعد والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کی نصیحت کی ہے۔ اس آیت میں مزید یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر ان میں کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو انھیں اُف تک نہ کہا جائے، نہ انھیں جھڑک کر جواب دیا جائے بلکہ ان سے احترام کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ قولِ کریم کا ترجمہ مفسرین نے احترام، ادب، عزت، تعظیم، کرم والی بات، سعادت مندانہ بات، شریفانہ بات، نرم بات، وغیرہ الفاظ سے کیا ہے۔ قول کریم میں تواضع، عاجزی، فروتنی و خاکساری کا مفہوم شامل ہے۔ اسی آیت میں والدین کو اْف تک نہ کہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے، جو اولاد کی بے زاری اور والدین کی دلآزاری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے برعکس اولاد کو عزت و احترام سکھایا گیا ہے۔ اگلی آیت میں سکھائی گئی دعا میں والدین کے احسانات اور اولاد کے تئیں ان کے مربیانہ رول کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ان خدمات کا کم از کم صلہ جو اولاد اپنے والدین کو دے سکتے ہیں وہ ادب و احترام کی گفتگو ہے۔
خلاصہ: قولِ کریم سے مراد ایسی گفتگو ہے جس میں ادب و احترام کا جذبہ شامل ہو۔ قولِ کریم کے اصل حق دار والدین ہی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہمارے اساتذہ، ہمارے اکابر، ہمارے ذمے داران، بزرگ احباب سب اس زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی اکرمؐ نے اس شخص کو ملت سے خارج قرار دیا ہے جو چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی توقیر نہ کرے۔ (مسند احمد)