دھرنوں کی آڑ میں چُھپی حکومت سندھ اور متحدہ؟

329

کراچی میں مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی کال پر پاراچنار کے دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنوں کی سب سے اہم بات یہ تھی حکومت ِ خیبر پختون خوا اور پارا چنار کے دونوں گروپوں کے درمیان مذاکرات میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ دونوں گروپ اپنے بھاری ہتھیار حکومت کے حوالے کر دیں گے۔ لیکن کراچی دھرنوں میں خطاب کرنے والے مرد و خواتین اہل تشیع علماء و ذا کرین نے اعلان کیا کہ وہ ہتھیار حکومت کے حوالے نہیں کر یں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاراچنار میں جاری جنگ میں اہل تشیع کے مخالفین کا یہ دعویٰ درست ہے وہاں بھاری اسلحہ دونوں اطراف سے استعمال ہو رہا تھا تو پھر مظلوم صرف ’’پاراچنار‘‘ کے اہل تشیع ہی کیوں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’پاراچنار‘‘ کو پُر امن بتانے والے اہل تشیع یہ بھی بتائیں کہ یہ اسلحہ پُرامن پاراچنار میں کس نے کہاں سے پہنچایا؟ بھاری اسلحے کی پاراچنار میں موجودگی کے لیے کراچی میں دھرنا کیوں دیا جارہا ہے۔

یہ باتیں تلخ لیکن حقیقی ہیں کہ مجلس وحدت المسلمین کا دھرنا کراچی کی آبادی کے لیے نیا نہیں اور یہ بات بھی واضع ہے کہ اس دھرنے کے سہولت کار پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ کی سندھ حکومت ہوتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے لیکن اس مرتبہ ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کو میدان میں آنا پڑا اور اس کے فوری بعد ہی حکومت ِ سندھ کو یاد آیا کراچی میں مجلس وحدت المسلمین کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی رہتے ہیں اور مجلس وحدت المسلمین کے دھرنے سے پورا شہر بند ہو جاتا ہے جس میں حکومت ِ سندھ بھر پور انداز سے شریک نظر آتی رہی ہے۔

یہ سب کچھ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے۔ شہر کے جن مقامات پر دھرنے 8 روز سے جاری ہیں وہاں بھی حکومت کی جانب سے پولیس کی 4 سے 5 گاڑیاں دھرنے کی حفاظت کے لیے موجود رہتی ہیں اور ان مظاہرین کی تعداد 5 سے 10 ہوتی تھی۔ راستے کو بند

کرانے میں پولیس اہلکاروں کا کردار کلیدی ہوتا تھا اس دوران اگر کوئی ایمبولنس یا بیمار گاڑی میں ہوتا تو اس کے ساتھ پولیس اور مظاہروں میں شریک افراد ایسا سلوک کرتے کہ اہل تشیع کے سوا دوسرے تما م لوگ حکومت ِ سندھ کی نظر غیر ملکی ہیں۔ ان دھرنوں میں پی پی پی اور متحدہ کے فارم 47 سے کامیاب وزیر اور ارکانِ اسمبلی بھی موجود رہتے تھے تاکہ چند دھرنے والوں سے کوئی الجھنے کوشش نہ کرے۔ اگر کوئی ایسا کرتا تو یہ ارکان، وزیر و مشیر، سرکاری طاقت کو استعمال کرتے اور عوام کو بلاجواز پریشان کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر چھے ماہ بعد عوام کو اذیت کا سامنا کرنا پڑ تا اور عوام دھرنے والوں کے سامنے بے بسی کی تصوریر بنے رہتے۔

منگل کے روز وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت کے باوجود پولیس دھرنے کو ختم کرانے ناکام رہی اور پیر و منگل کی درمیانی شب کو ہر دھرنے سے حکومت ِ سندھ کو یہ دھمکی دی جاتی رہی ہے کہ دھرنے کسی قیمت پر ختم نہیں ہوں گے اور کچھ دیر بعد پورے شہر میں دھرنے تھے اور پوری حکومت سندھ تماشا دیکھ رہی تھی، لیکن 11 سے 12بجے درمیان نمائش چورنگی سمیت چھے مقامات پر دھرنے ختم کیے گئے اور ایک گھنٹے بعد دوبارہ دھرنا شروع کر دیا گیا اور نمائش چورنگی، عباس ٹاؤن سمیت 6 مقامات پر دوبارہ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے بعد ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ نے اپنے اعلان کے مطابق دھرنا دیا جس پورے شہر کا نظام مکمل طور سے بند ہو گیا۔

سندھ حکومت کے اعلان کے مطابق پولیس کی کارروائی کے بعد کراچی میں ایم ڈبلیو ایم کی کال پر پاراچنار کے دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنوں کا دوبارہ آغاز ہوا، نمائش چورنگی پر مرکزی دھرنا جاری رہا اور پولیس کی بڑی تعداد دھرنے کے اطراف موجود تھی۔ اس دوران صورتحال کشیدہ ہوگئی، مشتعل مظاہرین نے 4 موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی جبکہ 3 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے۔ مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی جانب سے شہر کے مختلف مقامات پر 6 روز سے احتجاجی دھرنے جاری رہے۔ کیا اس پوری صورتحال سے یہ بات واضع تھی کہ حکومت ِ سندھ صرف سنی اتحاد کونسل کے دھرنے کو روکنے کے لیے کارروائی کر رہی تھی۔

پھر یہ بھی اعلان ہو ا کہ پولیس نے نمائش چورنگی کا کنٹرول سنبھال لیا اور احتجاج کرنے والوں کا ٹینٹ اُکھاڑ دیا جبکہ اہلکاروں پر اطراف کی گلیوں سے پتھراؤ بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، رضویہ سوسائٹی میں بھی پولیس نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران شیلنگ کی ہے۔ دوسری جانب، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہر میں دھرنے کی آڑ میں متعدد موٹر سائیکلیں جلانے پر نوٹس لے لیا۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق مراد علی شاہ نے کہا کہ شہری و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، احتجاج کا حق سب کو ہے، مگر اس طرح شہری املاک کو نقصان پہنچانا، شرانگیزی ہے، جنہوں نے گاڑیاں جلائیں اْن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دھرنوں کے لیے مخصوص مقام کی اجازت دے رکھی ہے۔ پھر سوال یہی ہے کہ یہ مقام اس قدر کیسے بنائے گئے وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈیشنل آئی جی کو صورتحال بہتر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے شہر میں بدنظمی ختم کرکے فوری رپورٹ پیش کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق گزشتہ روز 13 مقامات پر دیے جانے والے دھرنوں میں سے 6 مقامات پر ٹریفک کی روانی بحال کردی گئی ہے۔ ان 6 مقامات میں جوہر موڑ سے جوہر چورنگی جانے والا راستہ، فائیو اسٹار چورنگی، شمس الدین عظیمی روڈ، ناظم آباد میں نواب صدیق علی خان روڈ، انچولی اور عائشہ منزل شامل ہیں۔

ایم ڈبلیو ایم کے ترجمان سید علی احمر زیدی نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے زور پر عباس ٹاؤن، پاور ہاؤس اور کامران چورنگی سمیت 10 مقامات سے دھرنا ختم کروایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تین مقامات پر دھرنا جاری ہے جن میں نمائش چورنگی، انچولی اور رضویہ سوسائٹی شامل ہیں۔ سید علی احمر زیدی نے دھرنے کے پرامن شرکا پر ہونے والے تشدد کی مذمت کی۔ ایک مرتبہ پھر نمائش چورنگی پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے علامہ حسن ظفر نقوی نے کراچی میں دھرنوں کو مزید منظم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پوری قوم سے دھرنے پھر سے منظم کرنے کی اپیل ہے، اب پورے سندھ میں دھرنوں کی کال دے رہا ہوں۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے اعلان کیا تھا کہ جب تک پاراچنار کا دھرنا جاری رہے گا، ہم بھی بیٹھے رہیں گے اور ہماری نرم آواز کو ہماری کمزروی نہ سمجھا جائے۔ یہ سارے بیانات اس لیے ہیںکہ پاراچنار سے بھاری اسلحہ حکومت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ان حالات میں حکومت سندھ کا امتحان ہے وہ دھمکی دینے والوں کے ساتھ ہے یا وہ کے پی حکومت کا ساتھ دے گی جو پاراچنار کو ہر قیمت پر امن بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔