ہم نے اپنی زندگی میں کراچی سے زیادہ مظلوم شہر نہیں دیکھا۔ کراچی کی عظمت یہ ہے کہ یہ قائداعظم کا شہر ہے۔ کراچی کا یہ اعزاز ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے ڈھاکا یا لاہور کے بجائے کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ کراچی ملک کی واحد بندرگاہ ہے۔ اگر ملک سال میں 100 روپے کماتا ہے تو صرف کراچی پاکستان کو 70 روپے کما کر دیتا ہے۔ صوبہ سندھ اگر سال میں 100 روپے کماتا ہے تو کراچی سندھ کو 95 روپے کما کر دیتا ہے۔ پاکستان کے دائرے میں کراچی سے زیادہ کشادہ دل شہر کا تصور محال ہے۔ لاہور صرف پنجابیوں کا شہر ہے، پشاور صرف پٹھانوں کا شہر ہے، لاڑکانہ صرف سندھیوں کا شہر ہے، کوئٹہ صرف بلوچوں اور پشتونوں کا شہر ہے۔ مگر کراچی منی پاکستان ہے۔ کراچی میں مہاجروں کی اکثریت ہے۔ وہ شہر کی آبادی کا 42 فی صد ہیں۔ لیکن کراچی میں اس وقت 15 لاکھ پشتون آباد ہیں۔ 10 لاکھ پنجابی کراچی کو اپنا گھر بنائے ہوئے ہیں۔ دس لاکھ سندھی کراچی میں آباد ہیں۔ کراچی میں 7 لاکھ سے زیادہ سرائیکی موجود ہیں۔ کراچی میں 5 لاکھ سے زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ کراچی میں 8 لاکھ سے زیادہ بنگالی پائے جاتے ہیں۔ کراچی میں 4 لاکھ سے زیادہ افغانی رہائش پزیر ہیں۔ کراچی کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کراچی ہمیشہ سے سندھ کا دارالحکومت ہے اور سندھ اسمبلی کراچی ہی میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس نے 1943ء میں پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کی تھی۔ لیکن کراچی کی مظلومیت یہ ہے کہ جنرل ایوب نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت نہ رہنے دیا۔ انہوں نے پنجاب میں اسلام آباد کے نام سے ایک نیا شہر آباد کرلیا مگر کراچی کو اس کا جائز مقام دینے سے انکار کردیا۔ جنرل ایوب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کراچی میں پہلا مہاجر پٹھان فساد کرایا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا نظریاتی شہر تھا۔ جماعت اسلامی کا صدر دفتر اگرچہ لاہور میں تھا لیکن اگر ملک میں کوئی شہر جماعت اسلامی کا کہلاتا تھا تو وہ کراچی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو صاحب کو کراچی ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سندھ میں کوٹا سسٹم متعارف کراکے کراچی کے نوجوانوں کے روزگار پر سب سے بڑا ڈاکا ڈالا۔ انہوں نے سندھ میں لسانی بل متعارف کراکے سندھ کی لسانی وحدت کو پارہ پارہ کردیا اور پاکستان کو جنم دینے والی اردو کو سندھی کا حریف بنا کر کھڑا کردیا۔ لیکن کراچی پر سب سے بڑا نظریاتی اور
سیاسی ظلم جنرل ضیا الحق نے کیا۔ انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے الطاف حسین جیسے فاشسٹ اور ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی شروع کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایم کیو ایم پورے کراچی اور حیدر آباد پر چھا گئی۔ کراچی اور حیدر آباد کی مہاجر آبادی اس سے پہلے اسلام کی علمبردار تھی۔ اس کا تشخص علم، شعور اور تہذیب تھا۔ تحریک پاکستان، دلّی اور یوپی کے مسلمانوں کے بغیر ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کو لسانی سیاست کا علمبردار بنادیا۔ انہوں نے مہاجروں کو دہشت گرد اور بھتا خور بنادیا۔ ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کے کلچر کو تاراج کردیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی خون آشامی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ سابق ڈی جی رینجرز محمد سعید کے مطابق کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد مارے گئے۔ یہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں بھی اتنے لوگ نہیں مارے گئے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ جب چاہتی الطاف حسین کو گرفتار کرکے ان سے کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کا حساب لے سکتی تھی۔ مگر اس نے الطاف حسین کو گرفتار کرنے کے بجائے انہیں ملک سے فرار ہونے کا موقع دیا۔ مگر لندن جانے کے بعد بھی الطاف حسین کی تباہ کن سیاست جاری رہی۔ جرنیلوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر اس وقت ہاتھ ڈالا جب الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دینی شروع کیں۔ الطاف حسین جرنیلوں کو گالیاں نہ دیتے تو ان کی قتل و غارت گری کا سلسلہ آج بھی جاری ہوتا۔
کراچی کی مظلومیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک سو روپے کماتا ہے تو کراچی ان میں سے ملک کو 70 روپے کما کر دیتا ہے۔ سندھ سو روپے کماتا ہے تو کراچی صوبے کو 95 روپے کما کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ وفاق کراچی کو کچھ دینے کے لیے تیار ہے نہ سندھ کراچی کوکچھ دینے کا روا دار ہے۔ کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے مگر شہر کے پاس کوئی مربوط ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں ہے۔ کراچی میں نہ بڑی بسیں دستیاب ہیں، نہ کراچی میں کوئی ریلوے کا نظام موجود ہے۔ نہ یہاں کوچز چل رہی ہیں۔ کراچی میں پینے کے پانی کا کال پڑا ہوا ہے۔ کراچی کی یومیہ ضرورت 11 سو ملین گیلن پانی ہے مگر کراچی کو صرف 550 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ ساری دنیا کے بڑے ساحلی شہروں کو ڈی سیلی نیشن کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے مگر کراچی ایسی سہولت سے محروم ہے۔ نارتھ ناظم آباد کراچی کے پوش علاقوں میں شمار ہوتا ہے ہم نارتھ ناظم آباد کے کے بلاک میں رہائش پزیر ہیں اور ہمیں گزشتہ 15 سال سے میٹھا پانی دستیاب نہیں۔ چنانچہ پورا بلاک چھے سات سال ٹینکرز کے پانی پر چلتا رہا اور اب بورنگ کے کھارے پانی پر چل رہا ہے۔ البتہ ہزاروں لوگ 15 سال سے پانی کے بل پابندی سے ادا کررہے ہیں۔ کراچی میں سڑکوں کی حالت یہ ہے کہ شہر کی بڑی سڑکیں تک ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کراچی میں نکاسی آب کا نظام اتنا خراب ہے کہ جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا کچرا تک ٹھکانے لگانے کا بندوبست موجود نہیں۔ کراچی میں سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کے شہر میں صرف ایک سرکاری یونیورسٹی یعنی جامعہ کراچی ہے۔
کراچی کے ساتھ سیاسی ظلم کا آغاز جنرل ضیا الحق کے دور میں ایم کیو ایم کی سرپرستی سے ہوا تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم واقعتاً عوام میں مقبول تھی مگر اب جنرل عاصم منیر کے عہد میں جبکہ ایم کیو ایم ایک صوبائی سیٹ بھی جیتنے کے قابل نہیں رہی ایم کیو ایم کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیش تر نشستیں دے کر مینڈیٹ تحریک انصاف سے چھین لیا گیا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور وہی کراچی کی میئر شپ کی حقدار تھی مگر ایجنسیوں نے گندا کھیل کھیل کر مرتضیٰ وہاب اور پیپلز پارٹی کو شہر پر مسلط کردیا۔ مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا میئر بنے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے مگر وہ شہر کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکے ہیں۔
کراچی پر ظلم کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پارا چنار میں شیعہ سنی فسادات ہورہے ہیں اور شیعوں کی ایک چھوٹی سی تنظیم مجلس وحدت مسلمین گزشتہ چھے دن سے پورے کراچی کو یرغمال بنائے بیٹھی ہے۔ اس نے کراچی کے 13 مقامات پر دھرنے دے رکھے ہیں۔ ان میں سے کسی دھرنے میں پانچ لوگ موجود ہیں، کسی دھرنے میں دس لوگ بیٹھے ہوئے اور کسی دھرنے میں سو ڈیڑھ سو خواتین تشریف فرما ہیں۔ اس طرح دو سو تین سو لوگوں نے ساڑھے تین کروڑ آبادی کے شہر کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ان دھرنوں سے پورے شہر کے ٹریفک نظام کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ لوگ آدھے گھنٹے کا فاصلہ دو، دو ڈھائی ڈھائی گھنٹوں میں طے کررہے ہیں۔ دھرنوں کے ابتدائی چار دنوں میں 84 فلائٹس تاخیر کا شکار ہوئیں۔ شادی بیاہ کی ہزاروں تقریبات دھرنوں سے متاثر ہوئیں، کتنی عجیب بات ہے کہ شیعہ سنی فساد پارا چنار میں ہورہا ہے اور دھرنے کراچی میں دیے جارہے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان دھرنوں کو فوجی اسٹیبلشمنٹ، ایجنسیوں اور سندھ حکومت کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کہیں موجود نظر آتی ہے اور نہ سندھ حکومت ایک آدھ اختلافی بیان دینے کے سوا کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔ ہم نے نارتھ ناظم آباد میں فائیو اسٹار چورنگی پر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مجلس وحدت مسلمین کے پانچ سات افراد دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور رینجرز کی ایک وین وہاں موجود ہے لیکن رینجرز دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ فائیو اسٹار پر دس بارہ پولیس والے بھی موجود ہیں اور وہ بھی دھرنا دینے والوں کو کچھ نہیں کہہ رہے۔ یہ صورت حال دھرنوں کی ریاستی سرپرستی کے سوا کیا ہے؟ گزشتہ دو سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، تحریک انصاف نے جب بھی کسی شہر میں پرامن احتجاج کا اعلان کیا اسے رینجرز اور پولیس نے پوری طاقت استعمال کرکے ناکام کردیا۔ اسلام آباد میں ریاستی اداروں نے تحریک انصاف کے کارکنوں پر گولی تک چلا دی جس سے تحریک انصاف کے 12 کارکنان مارے گئے۔ ایک طرف یہ سنگ دلی اور شیطنت اور دوسری طرف یہ کشادہ دلی کہ کراچی میں 200 افراد ایک ہفتے سے پورے شہر کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور اس کی اطلاع نہ فوج کو ہے، نہ ایجنسیوں کو، نہ وفاقی حکومت کو اور نہ سندھ حکومت کو۔ اس سے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ کراچی میں ایک بار پھر ریاست اپنے ہی خلاف کام کررہی ہے، یہ کراچی اور پاکستان دشمنی کی انتہا ہے۔ یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ سندھ حکومت ایک ہفتے کے بعد اچانک جاگ اٹھی اور اس نے چند مقامات پر دھرنے ختم کرادیے۔ لیکن کئی اور مقامات پہ دھرنے جاری رہے یہاں تک کہ پاراچنار میں متحارب دھڑوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔ اس معاہدے کے بعد کراچی کو دھرنوں کا خاتمہ نصیب ہوا۔