عدالت کا تعارف؟

268

عدالت کا پہلا تعارف یہ ہے کہ جہاں مظلوم داد رسی کے لیے اور مجرم سزا کے لیے حاضر ہوں۔ دوسرا تعارف یہ ہے کہ عدالت بلا امتیاز اور بے لاگ انصاف کو یقینی بنائے۔ تیسرا تعارف یہ ہے کہ عدالت بلا خوف و خطر تمام فیصلے اللہ کے خوف سے کرے جیسا کہ خلفائے راشدینؓ کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ چوتھا تعارف یہ ہے کہ عدالت کے سامنے حاکم وقت بھی عام شہری کی طرح پیش ہو، کسی کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہوگا جیسا کہ خلافت ِ راشدہ کے زمانے میں تھا۔ پانچواں تعارف یہ ہے کہ تمام جج صاحبان بغیر لالچ اور دبائو کے فیصلے کریں گے۔ عدالت کا چھٹا تعارف یہ ہے کہ اُس کے تمام فیصلے اُس آئین اور قانون کے مطابق ہوں گے کہ جو اُس وقت ملک میں رائج ہوگا (یاد رہے کہ 1973ء کے متفقہ آئین میں یہ واضح لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوگا، لہٰذا پاکستان کی تعالیٰ عدلیہ کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ مذکورہ آئینی شق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے)۔ عدالت کا ساتواں تعارف یہ ہے کہ عدالت خفیہ نہیں کھلی ہوگی کہ جس کی کارروائی دیگر افراد بھی دیکھ سکیں گے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی عدالت کے دائرہ اختیار اور ذمے داریوں میں شامل ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے انتظامیہ کے فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لیتی رہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس صاحبان کو اس بات پر بھی ضرور توجہ رکھنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کوئی ایسی قانون سازی نہ کرے کہ جو آئین کی روح یا انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہو، حکومت کے فیصلوں پر بھی نظر ہونی چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومتی فیصلے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو مجروح کررہے ہیں، عدلیہ میں انتظامیہ کی مداخلت ’’انصاف‘‘ کو روکنے کی کوشش تصور کی جائے گی جسے روکنا بھی عدلیہ کی ذمے داری ہے، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ وکلا صاحبان پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدالت کو گمراہ کرنے سے گریز کریں۔ کسی بھی مقدمے کے اصل حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔ وکیل کی فیس جرم کی قیمت نہیں بننی چاہیے۔

مذکورہ تعارف کے علاوہ عدلیہ کا کوئی دوسرا تعارف نہیں ہوسکتا۔ فوجی عدالتوں کا تصور فوج کے اندر تو ہوسکتا ہے تاہم فوج سے باہر سویلین کے مقدمات چلانا اور انہیں سزائیں سنانا انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ ’’فوجی عدالت‘‘ اوپن ٹرائل کورٹ نہیں بلکہ ایک ’’خفیہ عدالت‘‘ ہے جس کے جج صاحبان کا نام، رینک اور عدالت سب نامعلوم ہیں۔ تمام کارروائی بند کمرے میں ہوتی ہے گو کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکتی ہے تاہم فوجی عدالت اپنے نامکمل تعارف کی وجہ سے عوام کا اعتماد یا پزیرائی حاصل نہیں کرپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں فوجی عدالتیں فوج کے اندرونی مقدمات تک محدود ہیں۔

سول عدالتوں کا وجود اور ٹرائل اوپن ہے، ملزم اور فریادی کے علاوہ بھی لوگ عدالتی کارروائی کو دیکھ سکتے ہیں۔ جج اور وکلا صاحبان عدالت سے فارغ ہونے کے بعد عام شہریوں کے درمیان رہتے اور گھومتے ہیں۔ ان کے بچے عام اسکولوں میں پڑھتے اور پارکوں میں کھیلتے ہیں۔ خطرناک مجرموں کے خلاف وکیل بننا یا فیصلے سنانا خطرے سے خالی نہیں۔ ملک بھر میں اس وقت 8 ہزار سزائے موت کے قیدی ہیں کہ جن کی سزا پر عمل ہونا ابھی باقی ہے۔ آخر یہ فیصلے بھی تو انہی سول عدالتوں نے سنائے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ جس عدالت کا کمرہ اور جج نامعلوم ہو اُسے عدالت کیسے کہا جائے گا؟ سول عدالتیں تو سب کے سامنے ہوتی ہیں، جج وکلا ان کے خاندان اور گھر کے ایڈریس تک سب کو معلوم ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف مقدمات لڑتے اور فیصلے سناتے ہیں جو یقینا قابل تحسین ہے جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کتنے ہی جج اور وکلا صاحبان دہشت گرد حملوں میں شہید کردیے گئے مگر اِس کے باوجود قانون دان اور جج صاحبان اپنے فرائض کی ادائیگی سے دستبردار نہیں ہوئے۔

لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ فوجی عدالتوں کو فوجی بیرکوں تک محدود رکھا جائے۔ سیاسی کارکنوں سمیت کسی بھی سویلین نے اگر فوج سے متعلق کوئی سنگین جرم کیا ہے تو اُس کا مقدمہ چلانے کی بھی بہتر جگہ سول عدالت ہی ہوگی کہ جہاں مجرم کو اُس کے جرم کی سنگینی کے مطابق سزا دی جائے گی۔ پاکستان کے عام شہری کی طرح ’’عسکری قیادت‘‘ کو بھی سول عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہیے، اِس طرح سے فوج کے احترام اور وقار میں اضافہ ہوگا، ان شاء اللہ۔

اللہ پاک ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے، آمین یا رب العالمین۔