ایک سال اور ختم ہوچکا ہے، لیکن کچھ ٹھیک نہیں ہورہا، اور وطن ِ عزیز ایک بار پھر تاریکیوں میں ڈوبا نظر آرہا ہے، ہر طرف سنگین خطرات کا طوفان برپا ہے اور گمبھیر بحرانوں کی ایک خوفناک لہر، گویا سونامی کی شکل میں، زندگی کے ہر پہلو کو تہس نہس کر رہی ہے۔ عوام بے چین ہیں، دانشور شش و پنج میں ہیں، اور نوجوانوں کے دلوں میں مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری کا بوجھ ہر دن بڑھتا جا رہا ہے، ہر ہر شعبہ معیشت، امن و امان، اور اجتماعی رویّے زوال پزیر ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف وقتی مسائل کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں کی غلطیوں، نااہلیوں، اور بیرونی مداخلتوں کا شاخسانہ ہے، حکومت بے سمت کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہی ہے لیکن جبر کی بنیاد پر قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اِس وقت خطرناک حد تک خراب ہے، جس کے ٹھیک ہونے کی باتیں صرف دعوے ہیں۔ دہشت گردی کی نئی لہر نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو خون میں نہلا دیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں دوران گزشتہ سال 2,500 سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ ملک کی سالمیت اور بقا اس وقت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
دہشت گردی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا ہوا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنی بربادی کی داستان سنا رہا ہے۔ یہاں گزشتہ سال اسٹریٹ کرائم کے 62 ہزار سے زائد واقعات ہوئے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کی زندگی اور مال و متاع کتنے غیر محفوظ ہیں۔ پانی کی عدم فراہمی کا مسئلہ بھی عوام کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ یہ صورتِ حال ایک آئینہ ہے جس میں ملک کے حالات، اربابِ اختیار کا کردار، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، اور حکومت، پولیس، رینجرز اور مختلف ادوار کی عسکری و سیاسی قیادتوں کے اعمال واضح نظر آتے ہیں۔ اس آئینے میں وہ سب عیاں ہے جو ہمارے ملک کو ان حالات تک لے کر آیا۔ آج یہ لاوا اُبل رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ اپنی ذمے داری ادا نہیں کرتی، حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو پامال کرتی رہتی ہے، اور مجرموں کو نہ صرف تحفظ دیا جاتا ہے بلکہ سرکاری عہدوں پر برقرار رکھ کر مزید مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو حکمرانوں کے عیش و عشرت اور روز افزوں بدعنوانیوں نے ملک کو اخلاقی اور انتظامی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ بدعنوانی کا بازار گرم ہے، اور قیادت کے ایک بڑے حصے کے اثاثے اور مفادات بیرونِ ملک منتقل ہوچکے ہیں۔ ان رہنماؤں کو نہ صرف اپنے اقتدار کی بقا بلکہ اپنی ذاتی سلامتی کے لیے بھی بیرونی طاقتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ملک میں حکمرانی کا نظام عملاً مفلوج ہوچکا ہے، اور مفادات کی اندھی پرستش ہر طرف نظر آتی ہے۔ ریاستی امور اور معیشت کی حالت کچھ یوں ہے کہ:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نَے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری خارجہ پالیسی، معیشت، نظامِ تعلیم اور تہذیبی زندگی پر امریکا اور اس کے سامراجی ایجنڈے کا اثر اتنا گہرا ہوچکا ہے کہ ہماری اشرافیہ و حکمران صرف بیرونی دباؤ میں ہی نہیں بلکہ ان کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ یہ مداخلت اتنی ہے کہ امریکا ومغرب ہی ملک کے سیاسی منظرنامے کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے ان کے اشاروں پر ہیں، ہمارے یہاں چلنے والی تحریکیں اور احتجاج جی اکثریت بھی مصنوعی ہوتی ہے اور ان کی براہِ راست شراکت سے ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں جیسا ہے ویسا نظر آنے والا کچھ نہیں ہے اس کھیل میں قیادت، بیرونی ایجنسیاں، خاص طور پر برطانیہ کا دفتر خارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سب کے سب شامل ہیں۔ ہماری قیادت تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں، وہ اس لمحے کا انتظار کررہی ہے جب:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
حکمرانوں کی بداعمالیوں کے باعث عوامی بغاوتوں کی کئی تاریخی مثالیں موجود ہیں، جب عوام نے حکمرانوں کی ناانصافیوں، بدعنوانیوں اور استحصال کے خلاف علَم ِ بغاوت بلند کیا۔ فرانس میں بادشاہ لوئی شازدہم اور ملکہ ماری انٹونیٹ کی بدعنوانی، شاہانہ زندگی اور عوام کے حقوق کی پامالی نے ملک میں غربت اور بھوک کو جنم دیا۔ حکمران طبقہ عیاشیوں میں مصروف تھا، عوام روٹی کے لیے ترس رہے تھے، نتیجتاً عوام نے بادشاہت کے خلاف بغاوت کی، جس کے نتیجے میں بادشاہ اور ملکہ کو سزائے موت دی گئی، اور ایک نیا سیاسی نظام تشکیل پایا۔ روس کا 1917ء کا بالشویک انقلاب سامنے ہے، پھر شاہ ایران محمد رضا پہلوی کی بدعنوانی اور بیرونی قوتوں پر انحصار… نتیجہ یہ ہوا کہ عوامی تحریک نے شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور کچھ نہیں بچا۔ مصر میں حسنی مبارک اور لیبیا میں معمر قذافی کی حکومتیں عوامی غصے کا شکار ہوچکی ہیں، اور بنگلادیش اور شام کی مثالیں بھی زیادہ پرانی نہیں۔
پاکستان کے موجودہ حالات تاریخ کے ان تلخ واقعات جیسے ہی ہیں جہاں حکمرانوں کی بدعنوانی، نااہلی، اور عوام کے مسائل سے بے اعتنائی نے بغاوتوں کو جنم دیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، اور انصاف کی عدم فراہمی نے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ اگر حکمران طبقہ ان تاریخی مثالوں سے سبق نہیں سیکھتا اور عوام کے بنیادی مسائل حل، اور شفافیت اور انصاف پر مبنی حکمرانی کا نظام قائم نہیں کرتا، تو ملک ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ مہلت کم ہے اور خطرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر حکمران یہ موقع گنوا دیں تو تاریخ کا سبق یہی ہے کہ:
’’جو بویا جائے گا، وہی کاٹا جائے گا‘‘ اور بغاوت کی لہریں کسی کو نہیں بخشیں گی۔ محشر بدایونی نے ایسے موقع کے لیے ہی کہا تھا:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا