عدالت عظمیٰ کی جانب سے جائداد کے ایک تنازعے سے متعلق جاری کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کی طرف سے فیصلوں میں تاخیر کی ذمے داری صرف عدالتوں پر ہی عائد کی جارہی ہے جبکہ فریقین اور ان کے وکلا بھی اس طرح کی تاخیر کے لیے یکساں طور پر ذمے دار اور جواب دہ ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس محمد علی مظہر کے تحریر کردہ تیرہ صفحات کے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ نا قابل تردید حقیقت ہے تاہم مقدمات میں تاخیرکی ایک بڑی وجہ التوا کی درخواستیں دائر کیا جانا ہے۔ ہر جج ملک کی تقریباً ہر عدالت میں موجود بڑے پیمانے پر پچھلے مقدمات سے آگاہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عدالتیں گرائونڈ لیول پر بھی داخلی طور پر مناسب مینجمنٹ سسٹم بر قرار رکھیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اپیل کی سماعت میں تاخیر سے اکثر ملزم قید کے دوران انتقال یا اپنی سزا مکمل کر کے جیل سے رہا ہو چکا ہوتا ہے۔ مسلمہ عالمی اصولوں کے مطابق انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکارکے مترادف تصور کیا جاتا ہے لیکن وطن عزیزمیں رائج نظام عدل کی بہت سی خرابیوں میں سے نمایاں ترین خرابی یہی ہے کہ یہاں دادا کی دائر کردہ درخواست کا فیصلہ سننے کے لیے پوتے کو عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں درست سمت میں نشاندہی کی گئی ہے کہ تاخیر کی وجوہ میں اہم فریقین اور ان کے وکلا کا طرز عمل بھی ہوتا ہے جو کیس کو لٹکانے اور تاخیر کا شکار کرنے کے لیے التوا کی درخوستیں دائر کر کے قانون کا ناجائز فیصلہ اٹھاتے ہیں، یہ اصل میں نظام عدل کی کمزوری ہوتی ہے، اس ضمن میں بنیادی ذمے داری جج صاحبان ہی پر عائد ہوتی ہے کہ التوا کے ذریعے تاخیر کر کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کریں۔