نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے امریکی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ رچرڈ گرینل نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ رچرڈ گرینل نے کہا کہ گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی سربراہ حکومت سے بہترین تعلقات تھے۔ کامن سینس کی بات کرتے تھے چاہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ٹرمپ پر تھے۔ ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پیچیدہ گفتگو کی۔ اصل بات یہی ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عمران خان کی آزادی پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق ہوگی۔ ان کی رہائی پاکستانی عوام کی شراکت سے اور عدالتوں کے ذریعے ہوگی۔ ملک بھر کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کو بادی النظر میں عمران خان کی رہائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ رچرڈ گرینل کے انٹرویو میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام کے بجائے عمران خان کی رہائی کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد دراصل پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کو دبائو میں لا کر عمران خان کی رہائی کی راہ ہموار کرنا ہے۔
اوّل تو پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی پابندی کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، پاکستان کی طرف سے یہ تمام تر تیاریاں خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے کی جاتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے مہلک ہتھیار بالخصوص جوہری ہتھیار نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ بھارت ان میں مسلسل اضافہ کر کے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگاڑتا نظر آتا ہے جس کے لیے اسے امریکا کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے۔ امریکا کا یہ دہرا معیار ہی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا باعث بن رہا ہے۔ جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا تعلق ہے، ان کی رہائی یا قید کا فیصلہ پاکستان کی مجاز عدالتیں ہی کریں گی اس لیے امریکی انتظامیہ کو اس حوالے سے پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص عدالتی معاملات میں مداخلت سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ کسی کو اپنے ریاستی معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ رہی بات میزائل پروگرام پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کی تو اس کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بہتر اور موثر انداز میں امریکی وزیر خارجہ کو مطمئن کر سکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے ہم پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ وفاقی کابینہ میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ملک کے دفاع کے لیے ہے اور یہ 24 کروڑ عوام کا پروگرام ہے۔ پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو ہم صرف اپنا دفاع کریں گے۔ نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور دیگر اداروں پر امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے، پاکستان ایسا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ ہمارا جوہری نظام جارحانہ عزائم پر مبنی ہو، یہ سو فی صد دفاعی نظام ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون کے الزام میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس سمیت چار اداروں پر اضافی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پاکستان کے کچھ نجی اداوں پر اضافی پابندیاں عائد کی ہیں۔ بیان کے مطابق پاکستان نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس نے، جو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کا ذمہ دار ہے، پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ مواد کے حصول کے لیے کام کیا ہے۔ امریکا کی جانب سے ایسا ہی الزام ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اور اورک سائیڈ انٹرپرائزز پر بھی عائد کیا گیا۔ ستمبر میں بھی امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر ساز و سامان کی ترسیل کرنے والے چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت کئی چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان کمپنیوں پر بھی یہ الزام تھا کہ انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے شاہین میزائل 3 اور ابابیل سسٹمز کے راکٹ موٹرز کے لیے ساز و سامان فراہم کیا تھا۔ اسی سال اپریل میں امریکا نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری اور تعاون کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا ان چار کمپنیوں کو نامزد کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث رہی ہیں۔ امریکا تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا۔
ترجمان دفتر ِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکا کی مزید پابندیوں کو متعصبانہ اور دہرے معیار کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیت خودمختاری کے دفاع اور جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لیے ہے اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر ملک کے 24 کروڑ عوام کا مقدس بھروسا ہے۔ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات کی بنیاد پر تیار کی گئیں جبکہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلائو کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ پاکستان نے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ماضی میں دوسرے ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے لائسنس کی شرط بھی ختم کر دی گئی جبکہ اب پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکا کی طرف سے جس میزائل پروگرام پر بار بار پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ یہ پروگرام تو کیا پاکستان کو تو ایٹمی پروگرام کی بھی ضرورت نہیں تھی اگر پاکستان کا بدترین اور موزی دشمن بھارت اسلحہ کی دوڑ شروع نہ کرتا۔ شروع ہی سے اس کے جارحانہ عزائم نہ ہوتے تو اسلحہ کی دوڑ کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ اس نے 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ اس کے بعد اس نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس پر پاکستان کو بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ پروگرام شروع ہوا، 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پاکستان ایٹمی قوت سے لیس ہو چکا تھا گو کہ اس کا باقاعدہ اعلان بھارت کے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کر کے کیا گیا۔ پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کے تحت بنیا باقی پاکستان کو بھی کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اس کے دیگر میزائل و راکٹ سازی سمیت دفاعی کے منصوبے خطے میں دفاعی توازن کے لیے ہی ہیں۔
امریکا دنیا میں ایٹمی عدم پھیلائو کی بات کرتا ہے۔ دنیا میں انسانیت کی ایٹم بم کے ذریعے سب سے پہلے تباہی امریکا کی طرف سے کی گئی تھی۔ اگر جاپان کے پاس اس وقت ایٹم بم ہوتا تو امریکا کبھی ہیروشیما اور ناگاساکی کو انسانوں سمیت جلا کے راکھ نہ کرپاتا۔ ایران ایٹمی قوت ہوتا تو اسرائیل اس کے اندر گھس کے یلغار پر یلغار نہ کرتا۔ لیبیا کی طرح یوکرین نے بھی اپنا ایٹمی پروگرام کچھ طاقتوں کی اس کے دفاع کی یقین دہانی پر لپیٹ دیا تھا۔ یوکرین آج روس کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہے۔ کرنل قذافی کو اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے۔ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام جارحیت کے لیے نہیں بلکہ یہ کم از کم ڈیٹرنس پر برقرار یے میزائل پروگرام میں توسیع پر امریکی پابندیاں بلاجواز اور دہرے معیار کا شاہکار ہیں۔ جو پاکستان کے لیے قابل قبول ہیں اور نہ ہی قابل برداشت ہیں۔