حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات اور ریاست کا بحران!

189

آخرکارِ خدا خدا کرکے حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کے درمیان بذریعہ پارلیمنٹ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، دونوں فریقوں نے اس سلسلے میں کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں۔ تاہم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت موجودہ حکومت کے بجائے ’’اصل طاقتوروں‘‘ سے بات کرنے کی شرط رکھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ حکومت منتخب نہیں بلکہ فارم 47 کی پیداوار اور مسلط کی گئی حکومت ہے، اس لیے ان سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ جیل میں قید ہیں اور ان پر 9 مئی سمیت 184 مقدمات درج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چاہے ساری زندگی ہی کیوں نہ جیل میں رکھا جائے، نہ معافی، نہ باہر فرار اور نہ ہی جعلی حکومت کو تسلیم کروں گا‘‘۔ پی ٹی آئی اپنے قائد کو آزاد کرانے کے لیے کئی بار احتجاج کا بھی اعلان کر چکی ہے، آخری احتجاج ڈی چوک پر خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور خان کی بیوی بشریٰ بی بی کی قیادت میں کیا گیا، جس میں فائرنگ ہوئی اور احتجاج منتشر ہوگیا۔ پی ٹی آئی نے الزام لگایا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے ان کے کارکنوں پر براہ راست گولیاں چلائیں، جس میں درجنوں کارکن شہید اور سیکڑوں کارکن لاپتا ہیں، لیکن حکومت ان الزامات کو رد کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، جب دشمن ملک بھارت کے ساتھ بات کرنے کے لیے ہمارے حکمران بے تاب ہیں تو اپنے شہریوں اور ایک سیاسی جماعت سے بات چیت کرنے میں کیا حرج ہے؟ اصل مسئلہ دونوںا طراف سے نیتوں میں اخلاص کے فقدان کا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ ہر حکومت نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور دبائو میں لانے کے لیے بھینس، گائے بکری وغیرہ چوری کے جھوٹے مقدمات، پانی بند کرنے اور قتل کے الزامات لگا کر اپنی ایک ہٹ دھرمی قائم کی، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ملکی دولت کی لوٹ مار، قتل اور دیگر کئی مقدمات تو شریف خاندان سمیت دوسری قیادت پر بھی ہیں، لیکن جیل میں بند صرف عمران خان کیوں؟ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ 8 فروری کو جس طرح عام انتخابات کرائے گئے اور نتائج کس طرح تبدیل کیے گئے، اس سے پوری قوم اچھی طرح واقف ہے، لیکن اس کے باوجود وقت کی ضرورت ہے کہ ملک اور قوم کے مفاد کے لیے اب آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ موجودہ سیاسی کشیدگی میں ریاست کئی بحرانوں سے دوچار ہو چکی ہے جس سے ہر شہری پریشان ہے۔ ملکی معیشت تباہ، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری طبقہ سخت پریشان ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر جو اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ کو بھی یہ ریمارکس دینے پڑے کہ ’’ریاست حکومت بنانے اور گرانے میں مصروف ہے، ادارے سیاسی مخالفوں کے پیچھے پڑے ہیں‘‘۔ اسی طرح امن و امان کی صورتحال پاراچنار سے لے کر کشمور تک خراب ہے، دوسری طرف آئے دن سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردوں کی جانب سے مہلک کارروائیوں کا ہے جس کے سبب ہماری سیکورٹی فورسز کے افسران اور نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ عدالت کا اشارہ طاقتوروں کو یہ تھا کہ وہ حکومتیں بنانے اور گرانے کے بجائے اپنے اصل کام پر توجہ دیں۔

چند روز قبل لاہور میں مسلم لیگ ن کے اہم وسنجید رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے والد خواجہ رفیق شہید کی برسی پر منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اچھی بات کی کہ پاکستان ریمو ٹ کنٹرول جمہوریت سے آگے نہیں چل سکتا، پاکستان کے بحرانوں کی وجہ تین طرح کی ریموٹ کنٹرول جمہوریت ہے، ایک فوجی کنٹرول، دوسرا جب سیاست دان بادشاہ بن جائیں اور تیسرا جب چند جج چیمبر یا گھر میں فیصلہ کریں کہ کون جیل جائے گا اور کون اگلا حکمران بنے گا۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ملک ہماری مرضی سے چلے گا، مجھے بانی پی ٹی آئی نے نہیں بلکہ باجوہ اور ثاقب نثارنے جیل میں ڈالا تھا، آج ہم جہاں کھڑے ہیں اس میں بانی پی ٹی آئی، ثاقب نثار، قمر باجوہ، ساتھی ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں کا حصہ ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاست دان رگڑا کھاتا رہے اور فوج کا سابق سربراہ سارا کچھ کرکے گالف کھیلتا رہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں ہم ان کی بات نہیں کرتے، یہ اپنی غلطی نہیں مانتے اور دوبارہ فاشسٹ سوچ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں، میری اس وقت بھی بات نہیں سنی گئی اور آج بھی کوئی نہیں سنتا۔ اسی تقریب میں مہمان خصوصی لیگی رہنما اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نوازشریف، زرداری اور بانی پی ٹی آئی ساتھ بیٹھ جائیں تو 70 سال کے مسائل 70 دن میں حل ہوجائیں۔ انہوں نے بڑی پارٹیوں کے قائدین میں مذاکرات کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ دونوں مذاکراتی کمیٹیاں بھی انہی قائدین سے ہدایات لیتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں کو ملک کو آگے لے جانے کے لیے مل بیٹھ کرمسائل حل کرنے کے لیے کون سی قوتوں نے روک رکھا ہے؟

اس وقت قومی سیاسی قیادت کو آگے بڑھ کر سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ پرامن سیاسی مزاحمت ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔ ریاست مخالف سرگرمیوں کی پوری قوم مخالفت اور مذمت کرتی ہے، لیکن ریاست بھی تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔ دونوں فریق حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کو اپنی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر قومی مفادات کے لیے ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے موجودہ بحران کا حل نکالنا چاہیے۔ دونوں فریقوں کو وقت گزارنے کے بجائے سنجیدہ بات چیت کرنی چاہیے اور مقرر کردہ کمیٹیوں کو بااختیار بنانا چاہیے۔ ملکی سلامتی، ترقی، معیشت کی بحالی اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ملک اور قوم کے حق میں بہتر اور جمہوریت کے لیے بھی اچھا ہوگا۔