شام، پارا چنار اور کراچی کے دھرنے

220

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب روس کا زوال ہوا اور اس کا گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب پورا نہ ہو سکا اور افغان مجاہدین کو فتح حاصل ہوئی تو اس فتح میں پاکستان کی اخلاقی، سیاسی اور عسکری حمایت شامل تھی یہ الگ بات ہے کہ امریکا اسے اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ جب افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہوئیں تو ہر طرف سے یہ بات آرہی تھی کہ روسی فوجیں جہاں بھی گئیں وہاں سے شکست کھا کر واپس نہیں آئیں اس لیے اب افغانستان تو گیا اس کے بعد اگلا حدف پاکستان ہے۔ روس نے افغان تاریخ مطالعہ کیے بغیر اور اپنی عسکری طاقت پر بھروسا کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا حالانکہ وہ اگر زیادہ دور نہیں ماضی قریب میں دیکھ لیتا کہ برطانیہ جب دنیا کا طاقتور ترین ملک تھا اور اس کے دور حکمرانی میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس نے افغانستان پر حملہ کیا لیکن منہ کی کھانی پڑی اور تمام برطانوی فوج افغان مجاہدین کے ہاتھوں ماری گئی صرف ایک ڈاکٹر کو زندہ چھوڑ کر اسے گدھے پر بٹھا کر روانہ کیا گیا کہ وہ جاکر بتادے کہ ہمارے تمام ساتھی مارے گئے ہیں اور کبھی افغانستان کی طرف رخ بھی نہ کرنا اس کے بعد سے ہی برطانیہ کا زوال شروع ہوا۔

افغانستان کی ایک خوبی بھی اور ایک خامی بھی۔ خوبی تو یہ ہے کہ یہ کبھی کسی کا غلام نہیں رہا۔ کسی ملک نے بھی اس پر جارحیت کی اسے منہ کی کھانی پڑی، یہاں تک کے سکندر اعظم بھی پوری دنیا کو فتح کرتا ہوا آیا اور یہاں آکر رک گیا۔ نبی کریمؐ کے بعد خلفائے راشدین کا دور آیا اموی خلیفہ اور عباسی خلفاء کی بادشاہت کا دور آیا لیکن ان تمام ادوار میں جہاد کا کلچر سرکاری سطح پر فروغ پذیر رہا ان ادوار میں دنیا میں کہیں نہ کہیں جہاد ہورہا ہوتا اور ہر گھر سے کوئی نہ کوئی فرد جہاد کے لیے گیا ہوا ہوتا اور اس زمانے میں محمد بن قاسم سمیت بہت سارے ہیروز کے نام آتے ہیں لیکن ساتویں آٹھویں صدی کے بعد جن ہیروز کے نام آتے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان سے تھا۔ سبکتگین، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور بابر کا تعلق افغانستان ہی سے تھا جنہوں ہندستان پر حملے کیے اور مغلوں کا دور حکومت تو کئی برسوں پر محیط ہے۔ جہاں افغانوںمیں یہ خوبی ہے کہ انہوں نے جہاد کی سنت کو زندہ رکھا ہے وہیں ان کے اندر ایک خرابی بھی ہے کہ جس طرح آپؐ کی بعثت سے پہلے دور جہالت میں قبائل کی آپس میں جنگیں چلا کرتی تھیں۔ وہ رات کی تاریکی میں حملہ کرکے ایک دوسرے کے مال و مویشی لوٹنے کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو غلام اور لونڈی بنا لیتے تھے اسی سے ملتی جلتی خرابی ان کے یہاں بھی ہے کہ یہاں قبائل آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ روس کے خلاف تو تمام جہادی تنظیموں نے متحد ہو کر جہاد کیا اور جب روس نکل گیا تو افغانستان میں اقتدار کی جنگ میں یہ پھر آپس میں دست و گریباں ہو گئے۔

یہ تمہیدی گفتگو کچھ طویل ہوگئی۔ دراصل روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا امریکا سمیت ایک انجانے خوف کا شکار ہو گئی۔ کیونکہ روس کے خلاف جنگ اصل میں جہاد تھا اور امریکا بھی اس وقت اس جہاد کا سب سے بڑا حامی اور مددگار تھا اس لیے کہ اپنی مخالف قوت کو شکست سے دوچار کرنا تھا۔ اس لیے امریکا نے افغان جہاد نہ صرف بہت قریب سے دیکھا بلکہ اس کی قوت اور برکت کا اندازہ بھی کیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ جس طرح برطانیہ کی شکست کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی بالکل اسی طرح روس کی شکست کے بعد دیگر پانچ مسلم مملکتیں بھی آزاد ہوئیں۔ اس زمانے کے مغربی میڈیا میں یہ تجزیے شائع ہورہے تھے روس کی شکست کا مطلب کمیونزم کی شکست ہے۔ اس صدی کے آخر تک دنیا دو بلاک میں تقسیم تھی۔ ایک بلاک سرمایہ دارانہ ممالک پر مشتمل تھا اور دوسرا کمیونسٹ ممالک پر۔ مغربی دانشوروں کو اس بات کا خوف تھا کمیونزم کی وفات کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام ایک نظام کی حیثیت سے مقابلے پر آسکتا ہے ہمارے جو تحریکی ساتھی اس زمانے میں منور صاحب کی تقریریں سنتے رہے ہوں ان کو یاد ہوگا کہ وہ اپنی ہر تقریر میں اس کا ذکر کرتے تھے بلکہ وہ ان دانشوروں کے نام اور ساتھ ہی ان جرائد کے نام بھی بتاتے تھے جس میں اس طرح کے تجزیے شائع ہورہے تھے۔ بس اسی وقت سے امریکا نے اپنی اسٹرٹیجی تبدیل کی جس کے تحت مسلم ممالک کو افغانستان سمیت کمزور کیا جائے کسی کو عسکری طاقت کے حوالے سے کسی کو معاشی حوالے سے۔ پہلا کام تو یہ کیا کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں مضبوط کیا جائے عرب ممالک کو کمزور۔ اس کے بعد عرب سمیت مسلم ممالک کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ دوسرا حدف اس کا یہ تھا کہ افغانستان جو جہاد کا مرکز تھا اس کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے نائن الیون کا ڈراما رچایا گیا۔ پرویز مشرف کو دھمکی دے کر اپنے ساتھ ملایا اور نائن الیون کا الزام افغانستان پر لگایا گیا افغان حکمرانوں پر دبائو ڈالا گیا کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کیا جائے ان کے انکار پر افغانستان پر بھرپور حملہ کردیا گیا۔ پھر بیس سال تک افغان مجاہدین نے امریکا کے خلاف پھر جہاد کیا اور بالآخر امریکا نے پاکستان سے کہا کہ افغانستان کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے اس طرح امریکا نے اپنی شکست قبول کی۔

تیسرا ٹارگٹ مشرق وسطیٰ کی جہادی قوتوں کو ختم کرنا تھا۔ شام میں کچھ جہادی تنظیمیں حکومت کے خلاف جہاد کررہی تھیں یہ داعش سے پہلے کی بات ہے ان تنظیموں میں کچھ شیعہ مکتبہ فکر کی تنظیمیں تھیں اس میں حماس کے لوگ بھی تھے کچھ اخوان المسلمین بھی تھی حزب اللہ کے لوگ بھی تھے ایران اور تمام عرب ممالک ان تنظیموں کی حمایت کررہے تھے پھر یہ ہوا کہ 2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ ہوگئی اس وقت حزب اللہ کی حمایت تمام عرب ممالک کررہے تھے ایران سمیت پوری دنیا کے دیگر مسلم ممالک بھی حزب اللہ کی حمایت کررہے تھے حماس اور اخوان کے لوگ بھی بھر پور ساتھ دے رہے تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوگئی۔ اس شکست کے بعد حزب اللہ سمیت تمام تنظیموں نے شام کی طرف رخ کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس میں امریکی تھنک ٹینک نے یہ حکمت عملی اختیار کی مسلمانوں کے دو مکتبہ فکر ہیں ایک شیعہ اور دوسرے سنی۔ اسرائیل کو شکست اسی وجہ سے ہوئی کہ یہ دونوں مکتبہ فکر ایک ہو گئے تھے۔ اسی لیے جب اسرائیل کی شکست کے بعد تمام تنظیمیں شامی حکومت کے خلاف متحد ہوئیں تو امریکا نے شامی حکومت کے خلاف جہادی تنظیموں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا اور روس کو موقع دیا کہ وہ شامی حکومت کے خلاف جہادی تنظیموں پر بمباری کرکے انہیں تتر بتر کردے۔ سعودی عرب نے بھی اپنی حمایت واپس لے لی حالانکہ اس کا شامی حکومت سے شدید اختلاف تھا۔ اس طرح شامی حکومت کے خلاف منظم جہاد امریکی سازش کی وجہ سے ختم ہوگیا کہ اس جہاد میں دونوں مکتبہ فکر ایک تھے اور قیادت سنی العقیدہ تنظیموں کے ہاتھ میں جو اصلاً شامی شہری تھے۔ جن عرب ممالک میں بادشاہتیں تھیں وہ بھی خوف زدہ ہوگئے کہ اگر شام میں یہ جہادی کامیاب ہوگئے تو ہماری بادشاہت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو خود اپنے خلاف دشمن بناتا ہے خود ان کو اسلحے سے مدد کرتا ہے اس کی بہترین مثال القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں ہیں۔ شام میں جو سنی العقیدہ تنظیمیں تھیں اور ان کی قیادت اخوان و حماس کے پاس تھی انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ داعش میں شامل ہوجائیں جو اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والی تنظیمیں ثابت ہوئیں اب ان تنظیموں جو انتہا پسند لوگ تھے وہ شامل ہو گئے اکثریت ملک سے فرار ہوگئی۔ داعش کا مطلب دعوت اسلامی عراق و شام ہے جبکہ عملاً اس کا کام دفاع امریکا عراق و شام (داعش) یعنی عراق و شام میں امریکی پالیسیوں کا دفاع کیا جائے۔

داعش ایک سخت گیر انتہا پسند تنظیم ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ اب سے کئی برس قبل ایک پائلٹ کو پنجرے میں بند کرکے زندہ جلادیا گیا تھا اور پھر اس کی جلی ہوئی لاش پر ٹریکٹر چلا دیا گیا۔ 2011 میں جو عرب بہار آئی اس میں بھی شامی حکومت کا کچھ بال بیکا نہ ہوسکا روس نے بمباری کرکے داعش سمیت دیگر جہادی گروپوں کو کچل دیا۔

اس وقت ایسا لگتا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر بین الاقوامی سازش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کے ان دو فرقوں کو آپس میں لڑا دیا جائے پاراچنار کا سانحہ اسی سازش کی کڑی معلوم دیتی ہے جہاں جدید ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملے کیے گئے۔ اس کا اثر کراچی جیسے شہر میں آیا یا لایا گیا کہ ایک فرقے کے لوگوں نے کم و بیش ایک ہفتے سے مختلف مقامات پر دھرنے دے کر شہریوں کو اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے اب 31 دسمبر سے مخالف عقیدے کی ایک تنظیم نے شہر کے 60 مقامات پر دھرنے دیے۔ عباس ٹائون میں پولیس سے مقابلے کی بھی خبریں چل رہی ہیں اب اگر کراچی میں خدا نہ خواستہ دونوں گروپوں میں باہمی تصادم ہوگیا تو صورتحال بڑی خوفناک ہو جائے گی۔ کراچی جیسا صنعتی اور تجارتی شہر کچھ روز کے لیے بھی بند ہوگیا تو ملک کی سنبھلتی ہوئی معیشت پر ایک دھچکا ہوگا۔