وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ملک کی پائیدار ترقی کے عزائم کے ساتھ پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبہ کا افتتاح کیا ہے جسے ’’اُڑان پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے، منصوبہ کے مقاصد اور عزائم کے اظہار کی خاطر شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کے ایک مصرع ’’تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ 2025ء کے آغاز پر اس منصوبے کا افتتاح حکومت کی جانب سے نئے سال میں قوم کے لیے روشن مستقبل کی نوید قرار دیا جا رہا ہے۔ منصوبہ کا مرکز ومحور پانچ این کو بنایاگیا ہے جن میں برآمدات، ای پاکستان، ماحولیات، توانائی اور برابری و بااختیاری کے نکات شامل ہیں اور حکومت برآمدات کے فروغ کے ذریعے پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کی خواہاں ہے اور 2025ء میں ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت کا ہدف بھی طے کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے منصوبہ ’’اُڑان پاکستان‘‘ کے افتتاح کے موقع پر اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ یہ ملک کی اقتصادی نمو اور اقوام عالم میں کھڑے ہونے، مقام کے حصول کے لیے ایک بڑے سفر اور نئی صبح کا آغاز ہے اس سفر میں کامیابی کے لیے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی نا گزیر ہے ہم سب مل کر قائد اعظم کے خواب کی تکمیل کی خاطر کام کریں گے اور پاکستان کو عظیم تر بنائیںگے، وفاقی، صوبوں اور تمام شراکت داروں کے تعاون سے ’’اُڑان پاکستان‘‘ پر عمل درآمد کریں گے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے قومی یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ وزیر اعظم نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ کی کامیابی کے تقاضوں کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر توجہ دلائی کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے اشرافیہ کو کچھ قربانیاں دینا ہوں گی اور پائیدار ترقی کی خاطر سستی بجلی اور کم ٹیکسز ضروری ہیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے برادر بزرگ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نوازشریف کا ایجنڈا اپنا کر اپنے ملک کو ترقی دی جبکہ ہم نے ان کی حکومت گرا کر معیشت ڈبو دی، ہمیں اب نئی سوچ اور ٹھوس اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، ہم اپنی سیاست کو قومی مفاد پر قربان کریں گے اور سیاست میں ریاست کو بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک جائیں گے اور نتیجے میں جو بھی حالات ہوں گے ان کا سامنا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، ہمارے میں ذہین، فطین لوگ، بینکرز، سیاست دان، ہر شعبہ کے ماہرین اور پیشہ ور افراد موجود ہیں۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہمیں مجبوری میں آئی ایم ایف سے پروگرام لینا پڑا۔ میری دعا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کا پروگرام کیوں لینا پڑا، انہوں نے بتایا کہ پچھلی ایک دہائی میں ہمارے ریاستی ملکیتی اداروں نے چھے کھرب روپے کے نقصانات کیے جبکہ 77 برس میں کھربوں کی کرپشن ہوئی، ہمارے محصولات کا ایک حصہ بھی ہمیں نہ مل سکے تو قرضے نہ لیں تو کیا کریں؟ یہی وہ وجوہ ہیں کہ پاکستان آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اب رونے دھونے اور لعنت ملامت کا کوئی فائدہ نہیں مگر دیانتدارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف ’’اُڑان پاکستان‘‘ کے آغاز پر جن حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے انہوں نے جن خرابیوں اور مشکلات مسائل کی نشاندہی کی ہے ان سے بھی صرف نظر ممکن نہیں مگر وزیر اعظم اور ن کے ساتھیوں کو اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ خرابیاں محض بیان کر دینے یا اعتراف کر لینے سے دور نہیں ہوں گی اس کے لیے حکومت کو واضح منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اہداف طے کر کے ان خرابیوں سے ملک و قوم کو نجات دلانا ہوگی۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یہ اشارہ تو ضرور کیا کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے اشرافیہ کو کچھ قربانیاں دینا ہوں گی مگر کیا وزیر اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ اتنی اچھی ہے یہ وہ محض وزیر اعظم کی زبان سے یہ سن کر کہ ان کوقربانیاں دینا چاہئیں، قربانیاں دینے پر آمادہ ہو جائے گی۔ جی نہیں۔ ہرگز نہیں۔ وزیر اعظم کو اس مقصد کی خاطر واضح منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا اور اہداف طے کر کے نتائج کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا۔ خالی خولی و عظ و نصیحت سے اصلاح احوال کی توقع رکھنا خام خیالی ہوگی۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانا کرتے ہیں۔
ریاستی ملکیتی اداروں کے چھے کھرب روپے کے نقصانات اور ستر برس میں کھربوں کی کرپشن کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ وزیر اعظم جس منصب پر فائز ہیں ان کا کام محض خرابیوں کی نشاندہی کرنا ہی نہیں بلکہ ان کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات بھی ان کی ذمے داری ہے۔ وزیر اعظم نے اُڑان پاکستان کے افتتاح پر جن خیالات کا اظہار کیا، دیگر مواقع پر بھی وہ اس قسم کی اچھی اچھی باتیں ارشاد فرماتے رہتے ہیں مگر ان کا منصب ان سے صرف باتوں کی نہیں عملی اقدامات اور نتائج کا تقاضا کرتا ہے سوال یہ ہے کہ شریف خاندان اور اس کے اتحادی بھٹو خاندان کے اس ملک پر گزشتہ نصف صدی سے زائد کے اقتدار کو زیر بحث نہ بھی لایا جائے اور صرف وزیر اعظم شہباز شریف ہی کے گزشتہ ڈھائی تین برس کے اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو کیا حقائق اور اعداد وشمار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کے دور میں کرپشن اور چور بازاری، مہنگائی اور بے روز گاری، غربت اور افلاس میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت جتنے چاہے دعوے کرے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے مگر زمینی حقائق اور خود حکومتی اداروں کے جاری کردہ اعداد وشمار ان دونوں کی تصدیق کے بجائے تردید کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ کے افتتاح پر اپنی تقریر میں خود تسلیم کیا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے سستی بجلی اور کم ٹیکسز ضروری ہیں مگر عین اس روز جب وزیر اعظم یہ تقریر کر رہے تھے ان کی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے نئے سال کے تحفہ کے طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب موٹر ویز اور نیشنل ہائی ویز پر ٹول ٹیکس میں تھوڑا بہت نہیں سو فے صد کا ظالمانہ اضافہ نافذ کیا جا رہا تھا کیا یہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے مجبور عوام کی جیبوں پر کھلا ڈاکا نہیں۔ یہیں پر بس نہیں، چینی کے پچاس کلو کے تھیلے کی قیمت میں بھی اسی روز تین سو روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ اشیائے خورو نوش، دالوں، گوشت اور سبزیوں کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ بھی وزیر اعظم کے دعوئوں کا منہ چڑاتے محسوس ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو تقریر سے قبل اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کیا اس طرح پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی؟ اور ان کا نہایت شاندار عزائم کا حامل ’’اُڑان پاکستان‘‘ منصوبہ مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گا۔ جناب وزیر اعظم
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی