غیر قانونی تارکینِ وطن یورپ کے لیے دردِ سر بن گئے

211

غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کی کوششوں نے یورپ کی متعدد حکومتوں کے لیے سنگین نوعیت کے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ایک طرف یورپ میں تارکینِ وطن سے منافرت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف کسی نہ کسی طور یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یونان، اسپین، جرمنی اور دیگر نمایاں یورپی حکومتیں چاہتی ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو مگر اس حوالے سے کچھ خاص کامیابی نہیں مل پارہی۔

انسانی اسمگلرز لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ اسپین کی غیر سرکاری تنظیم کیمینانڈو فرونٹیئرز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2024 کے دوران صرف اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے دس ہزار سے زائد افراد لاپتا ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان، عراق اور افریقی ممالک سے تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دوسروں کے انجام سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں 2024 میں غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا۔ 2023 میں غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش میں 6618 افراد ہلاک یا لاپتا ہوئے تھے۔

بیشتر یورپی حکومتیں سخت تر قوانین نافذ کرنے کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے آنے والوں کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کے حوالے سے رائے عامہ ہموار ہوچکی ہے۔ اسکینڈینیویا کے ممالک اس حوالے سے پہلے ہی بہت سخت قوانین نافذ کرچکے ہیں۔ جرمنی، یونان اور اسپین اس حوالے سے نرم روی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔

یورپ کے بعض ممالک میں تارکینِ وطن کا معاملہ بہت سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ فرانس اور جرمنی میں تارکینِ وطن کو قبول کرنے کا رجحان کئی عشروں تک برقرار رہا۔ اب وہاں بھی شدید مزاحمت کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی تقسیم گہری ہوتی جارہی ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی سوچ ابھر رہی ہے۔ انتہائی قوم پرستانہ رجحانات کے فروغ پانے سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔ قانونی تارکینِ وطن کو قبول کرنے سے بھی بہت حد تک گریز کیا جارہا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والوں کو کسی حال میں قبول نہ کیا جائے۔