مذاکرات کتنا خلوص اور کتنی مجبوری

194

جاوید احمد خان
اللہ اللہ کرکے پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہوگئی۔ پی ٹی آئی کیا اصلاً تو عمران خان تیار ہوگئے ورنہ تو وہ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے خواہش مند تھے لیکن اس طرف سے کوئی ریسپانس نہیں مل رہا تھا۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بالواسطہ یہ پیغام آرہا تھا کہ عمران خان 9 مئی کے واقع پر معافی مانگیں۔ عمران خان مسلسل انکار کررہے تھے اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا مطلب اپنی غلطی تسلیم کرنا ہے اسی لیے انہوں نے اس کی جیوڈیشل انکوائری کی بات کی ہے۔ اب جو مذاکرات ہورہے ہیں اس میں پی ٹی آئی نے دو اہم مطالبات رکھے ہیں۔ پہلا یہ کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی جیوڈیشل انکوائری کی جائے اور تحریک انصاف کے گرفتار کارکنان عمران خان سمیت رہا کیا جائے۔ اگلے برس دو جنوری کو اس کی دوسری بیٹھک ہوگی۔ مذاکرات تو کوئی بھی خلوص سے نہیں کررہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت یہ چاہتی ہے مذاکرات کو اتنا طول دیا جائے کہ 9 مئی کے حوالے سے جو کیس چل رہا ہے اس میں فیض حمید کا فیصلہ آنے کے بعد کوئی ڈرامائی تبدیلی آسکتی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کا کیس فوجی عدالت میں چلا جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو حکومت کچھ دن کے لیے کمفرٹ زون میں چلی جائے گی۔ تحریک انصاف بھی خلوص سے نہیں بلکہ مجبوری میں مذاکرات کی میز پر آئی ہے وہ چاہتی ہے کہ حکومت پر اتنا اندرونی و بیرونی دبائو بڑھایا جائے کہ جن قوتوں نے ان کا مینڈٹ چرا کر من پسند حکومت بنائی ہے وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے فارم 47 کے بجائے فارم 45 کے نتائج پر حکومت سازی کریں یہی تو مسئلہ ہے کہ جب آپ 9 مئی کی غلطی نہیں مان رہے تو وہ پھر 8 فروری کی غلطی کیوں مانیںگے۔ مذاکرات کے موضوع پر اس سال اپریل ایک آرٹیکل لکھا تھا اس کا ایک اقتباس یاد دہانی کے طور پر پیش خدمت ہے۔

مذاکرات کی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف تو دل و جان سے یہ چاہتی ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے اس کے مذاکرات ہو جائیں لیکن ادھر سے نو لفٹ کا بورڈ لگا نظر آتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ان چاروں کے پاس آپس میں مذاکرات نہ کرنے کی کچھ مجبوریاں ہیں اور پھر بالآخر مذاکرات کرنے کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں پہلے ہم نہ کرنے کی مجبوریوں کا ذکر کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کی مجبوری 9 مئی ہے اگر تحریک انصاف کی بات مان کر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے یا ان کے نمائندوں نے تحریک انصاف کے لوگوں سے ملاقات کرلی تو دوسری سیاسی قوتیں یہ شور مچائیں گی کہ جن لوگوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا ریاستی اداروں میں توڑ پھوڑ کی ان ہی کو گلے لگالیا گیا اس طرح دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تحریک انصاف کی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے کی دو اہم وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فارم 47 کے لوگ ہیں یا یہ 9 فروری کو انتخاب جیتنے والے ہیں اس لیے ہم ان سے مذاکرات نہیں کرسکتے دوسرے یہ کہ یہ ہمیں مذاکرات میں کیا دے سکتے ہیں جبکہ اصل اختیار تو کہیں اور ہے، عمران خان کو رہا نہیں کرسکتے، پارٹی کے جو ہزاروں کارکنان خواتین سمیت جیلوں بند ہیں انہیں بھی کوئی ریلیف نہیں مل سکتا تو ایسے مذاکرات کا مطلب محض وقت کا زیاں ہی ہوسکتا ہے۔ ن لیگ کی مذاکرات نہ کرنے کی ایک ہی مجبوری ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کا دبائو (یعنی ان کی اجازت سے) اور پی پی پی کا مذاکرات نہ کرنے کی مجبوری یہ ہے کہ ہم نے جب پہلے مذاکرات کا کہا تھا اس وقت تو خاموشی اختیار کی تو اب ہم بھی خاموش ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے کہ عمران خان سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی لیکن اگر کسی مرحلے پر کوئی آمادگی محسوس ہوئی تو وہ بھی اس پریشر کو کم کرنے کے لیے کہ انتخاب میں کامیاب کوئی اور ہوا اور اقتدار کسی اور کو دلادیا گیا الیکشن ہوئے تین ماہ ہونے کو آرہے ہیں لیکن پی ٹی آئی نے انتخابات میں دھاندلی کا لوہا گرم رکھا ہوا ہے اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کے ن لیگ سے مذاکرات جلد ازجلد ہوں تاکہ یہ تاثر جائے کہ پی ٹی آئی نے اس رجیم کو کسی درجے میں قبول کرلیا ہے لیکن اگر یہ دبائو کم نہ ہوا تو ممکن ہے بیک ڈور سے یا بالواسطہ کچھ بااثر لوگوں کے ذریعے کوئی گفت شنید کا آغاز ہوجائے۔ اگر کسی مرحلے پر تحریک انصاف ن لیگ سے مذاکرات کے لیے تیار ہوئی تو اس کی مجبوری وہ اندرونی دبائو ہے جس میں ہزاروں کارکنان گرفتار ہیں اور دوسرے یہ کہ شاید ن لیگ کو کچھ اشارے مل جائیں کہ آپ ان کچھ مطالبات تسلیم کرلیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی دبائو کم ہو۔ پی پی پی اور ن لیگ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے صرف اس لیے مذاکرات کرنا چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں متحد ہوں گی تو اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکا جاسکتا ہے اور ن لیگ کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ خارجہ پالیسی ہمارے پاس نہیں خزانہ کا وزیر بھی باہر کا ہے کم از کم وزیر داخلہ تو ہمارا ہو۔

یہ تحریر اپریل کے مہینے میں لکھی گئی تھی اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے تیار ہوئی ہے تو کچھ وجوہات تو اوپر دی گئی ہیں لیکن اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے سارے پتے کھول چکی عوام نوعیت کے احتجاج، دھرنا، توڑ پھوڑ، اسلام آباد پر یلغار سب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اب تحریک انصاف کے ایم این اے۔ ایم پی اے اور دیگر مرکزی قیادت تھوڑا تنگ تنگ سی نظر آرہی ہے وہ کہہ رہے ہیں کارکنان بھی تھک چکے ہیں اس کے بعد عمران خان نے سول نا فرمانی اور ترسیلات زر روکنے کی دھمکی دی ہے لیکن اب اس میں بھی کوئی جان نظر نہیں آرہی ہے ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے آپشن تقریباً ختم ہوچکے اس لیے مذاکرات کی میز پر آنا ان کی مجبوری بن گئی۔

دوسری طرف 9 مئی کے 25 ملزمان کو پہلے سزائیں سنائی گئیں تو ایک تجزیہ یہ سامنے آیا کہ یہ عمران خان پر دبائو بڑھانے کی کوشش ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں اور وہ ہو گئے البتہ ان کے اپنے کیس کا فیصلہ جنوری کے پہلے ہفتے تک چلا گیا۔ لیکن آج پھر 60 پی ٹی آئی کارکنان کو سزائیں سنا دی گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذاکراتی ٹیم پر دبائو برقرار رہے۔ لیکن ان سب اقدامات سے تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت گھٹنے کے بجائے بڑھ رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کی اسٹریٹ پاور مضبوط ہوگئی اور وہ دوبارہ کوئی بڑے احتجاج کی کال دے سکتے ہیں البتہ ان کی ووٹنگ پاور مضبوط ہورہی ہے۔ سزائوں کے ساتھ یہ پوائنٹس بھی دیے گئے سزائوں کے خلاف آرمی چیف سے اپیل کی جاسکتی ہے اور اس کے بعد عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں بھی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

مذاکرات شروع ہونے کے حوالے سے دونوں طرف کی مجبوریوں کا تو ذکر تو ہوگیا۔ دونوں طرف کی کمیٹیاں کتنی مجبور ہیں یا کتنی پابند ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو بعد میں ہوگا یہ دونوں کمیٹیاں فیصلے کرنے یا کسی نتیجے پر پہنچنے میں آزاد نہیں ہیں۔ تحریک انصاف عمران خان کی اجازت کے بغیر خود کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اس طرح ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مذاکرات بالواسطہ طور پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہورہے ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان بااختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار سرپرستوں کے بے اختیار نمائندے ہیں۔