متین فکری
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہونے میں بڑا وقفہ لگا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی شہباز حکومت سے براہِ راست مذاکرات کی قائل نہ تھی۔ عمران خان کا مؤقف تھا کہ بات ان لوگوں سے ہونی چاہیے جن کے پاس قوت و اختیار ہے اور جو فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔ بات تو اصولی طور پر خان صاحب کی بالکل درست تھی۔ اس سلسلے میں وہ جتنا بھی مقتدرہ پر دبائو ڈال سکتے تھے ڈالا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی مذاکرات تو موجودہ حکومت ہی سے کرنے پڑیں گے، البتہ جو معاہدہ ہوا اس پر عملدرآمد کی ضمانت مقتدرہ دے گی۔ چنانچہ انہوں نے حکومت سے مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کردیا۔ حکومت کی طرف سے اس اعلان کا خیر مقدم کیا گیا اور اس نے بھی اپنی مذاکراتی کمیٹی میدان میں اُتار دی۔ دونوں کمیٹیوں کا باضابطہ طور پر ایک اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں ہو بھی چکا ہے جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کی ہے۔ اس اجلاس میں فریقین نے ایک دوسرے کے حق میں خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا اور مذاکرات کا معاملہ اگلے اجلاس پر اُٹھا رکھا گیا جو 2 جنوری کو ہوگا۔ البتہ پچھلے اجلاس میں یہ پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی سے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس کے بنیادی مطالبات میں سے سب سے پہلا اور بنیادی مطالبہ تو یہی ہے کہ اس کا عوامی مینڈیٹ اسے واپس کیا جائے، قومی اسمبلی میں اس کی قطعی اکثریت تسلیم کی جائے اور اسے حکومت بنانے کی اجازت دی جائے۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ یہ مطالبہ مذاکرات میں زیر غور آئے گا یا نہیں یا مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے اس مطالبے سے پہلوتہی اختیار کی جائے گی۔ دوسرا اہم مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان سمیت ان تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے جنہیں مقدمہ چلائے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ناخوشگوار واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور قائدین کے خلاف جس بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کیا گیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے۔ ان کی فیملیز کو اٹھایا گیا۔ ان پر تشدد کیا گیا اور انہیں اپنے مردوں کو سرنڈر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے۔ جائدادیں برباد ہوگئیں اور خاندان بکھر کر رہ گئے۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہوا جو اسلام کے نام پر عوام کی بے مثال سیاسی جدوجہد اور عظیم الشان قربانیوں سے وجود میں آیا تھا اور عوام اس بات کے مستحق تھے کہ ان کو تحفظ دیا جائے۔ تیسرا اہم مطالبہ پی ٹی آئی کا یہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے جس نے عدلیہ کو پایہ زنجیر کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اب 26 نومبر کو اسلام آباد میں افسوسناک واقعہ پیش آیا اس کے بارے میں بھی ان کا مطالبہ یہی ہے کہ اس پر بھی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
ظاہر ہے کہ 2 جنوری کو جب مذاکرات ہوں گے تو اور مطالبات میں سے کچھ مطالبات
زیر غور آسکتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں کچھ ایسے بارڈ لائنز بھی موجود ہیں جو پی ٹی آئی کے مطالبات کو بے تکے، لایعنی اور تضیح اوقات سمجھتے ہیں۔ ان ہارڈ لائنرز میں جناب عرفان صدیقی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ موصوف مسلم لیگ (ن) کا شہ دماغ ہیں۔ سینیٹ میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر، شاعر، کالم نگار، دانشور اور بہت کچھ ہیں۔ وہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان بھی ہیں۔ انہوں نے مذاکرات شروع ہونے پہلے ہی ایک کالم لکھ کر مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مذاکرات بالعموم اس وقت ہوتے ہیں جب ملک میں سیاسی عدم استحکام موجود ہو اور حکومت سیاسی ماحول کو بہتر بنانا چاہتی ہو۔ چنانچہ عرفان صدیقی کے کالم کا عنوان ہے ’’سیاسی عدم استحکام کا بیانیہ‘‘ انہوں نے اپنے لچھے دار کالم کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ وفاق میں ایک مضبوط حکومت قائم ہے جو قومی معیشت کی بحالی کے لیے موثر کوشش کررہی ہیں جس سے چیزیں بہتر ہورہی ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اس کی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی ہے جس میں چین اور روس کے وزرائے اعظم نے اپنے وفود کے ہمراہ شرکت کی اور پاکستان کے ساتھ متعدد معاہدے کیے۔ جبکہ بین الاقوامی وفود کا مسلسل آنا جانا لگا ہوا ہے۔ چاروں صوبوں میں بھی مضبوط حکومتیں قائم ہیں اور انہیں امن وامان کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس کالم کا بنیادی تھیسس ہی یہ تھا کہ سیاسی مذاکرات کیوں
اور کس لیے؟ اب حالات کا جبر ملاحظہ ہو کہ پی ٹی آئی کے ساتھ اس ’’مضبوط‘‘ حکومت کے مذاکرات ہوں گے ہیں اور عرفان صدیقی صاحب بھی ان مذاکرات کا حصہ ہیں۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ یہ حکومت خود مانگے تانگے کی ہے اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ سب کچھ فوجی مقتدرہ کا دیا ہوا ہے وہ پی ٹی آئی کو کچھ دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔ یہ مذاکرات درحقیقت مقتدرہ کی خواہش پر ہورہے ہیں۔ مقتدرہ نے عمران خان کے ساتھ براہ راست ڈیل کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ خان صاحب نے کوئی بھی شرط قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے مقتدرہ پر بیرونی دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی خان صاحب کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ان کے خلاف مقدمات کو بھی ایسے ہی قرار دیتے ہیں جیسے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف بنائے گئے تھے۔ فوجی عدالتوں سے عام شہریوں کو سزائوں پر بھی امریکا، برطانیہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ جبکہ 8 فروری کے الیکشن کو جس طرح اغوا کیا گیا اس پر بھی عالمی ردعمل موجود ہے اور اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ ہماری فوجی مقتدرہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس سارے دبائو کو بیک وقت برداشت کرسکے۔ اس دبائو سے نکلنے کا ایک راستہ یہ مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر عمران خان اور دیگر گرفتار شدگان کو رہا کرنا اور فوجی سزائوں کو لپیٹنا اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانا ناگزیر ہوگیا تو ان مذاکرات کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ان مذاکرات کوئی مستقبل نہیں ہے۔