باباالف
بیٹے نے اپنی ماں سے کہا ’’اماں! سب مجھے چریا چریا کہتے ہیں‘‘ ماں نے جواب دیا ’’بیٹا تیری شکل ہی ایسی ہے‘‘۔ خواجہ آصف کی چال ایسی ہے جیسے اللہ کی سب سے دلچسپ مخلوق کی لیکن شکل بہرحال ایسی نہیں ہے کہ دیکھ کر انہیں چریا کہا جاسکے، تاہم بات انہوں نے چریوں والی ہی کہی ہے، انتہائی احمقانہ، فضول اور سیکولر پروپیگنڈے سے متاثر۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے محمود غزنوی کے بارے میں کہا ہے کہ: ’’وہ تو لوٹ مار کرکے واپس چلا جاتا تھا، ہماری تاریخ میں اس کو ہیرو پینٹ کیا جاتا ہے، میں نہیں مانتا اس کو‘‘ خواجہ آصف کے بیان سے لگتا ہے کہ ہمیں نریندر مودی کا متبادل مل گیا۔ ایسے بیان کی مودی، آر ایس ایس اور ہندو ذہنیت سے متاثرہ لوگوں سے ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ کوئی مسلمان اور محمود غزنوی کے بارے میں ایسا کہے!!! جن کے نام پر مائیں بچوں کا نام رکھتی ہیں، جن کے نام پر ان میزائلوں کے نام رکھے جاتے ہیں جن سے امریکا اور بھارت پریشان ہیں، جن کی تکریم ہمارے ڈی این اے میں ہے، جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
2 نومبر 971ء تا 30 اپریل 1030۔ یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی، اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سلطنت غزنویہ کے پہلے آزاد حکمران، جنہوں نے 999ء سے 1030ء تک حکومت کی۔ وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے ’’سلطان‘‘ کا لقب اختیار کیا تھا۔ ان کی موت کے وقت، ان کی سلطنت ایک وسیع سلطنت میں تبدیل ہو چکی تھی، جو شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کا دارالحکومت غزنی اسلامی دنیا کے ایک اہم ثقافتی، تجارتی اور فکری مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ سلطان محمود کی فوج کی تعدادکم و بیش ایک لاکھ تھی جس میں عرب، غوری، سلجوقی، افغانی اور مغلوں کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے جن کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا۔ ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل ذکر نام بیرپال، چک ناتھ، زناش، بجے راؤ اور سوھنی راؤ شامل تھے۔
سلطان محمود غزنوی کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں۔ منفی پروپیگنڈے کی دھول ایک طرف کرکے ان حملوں کی بنیادی وجہ جان لینا ضروری ہے۔ اس وقت لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجا جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے والد سبکتگین کی 986ء میں جنگ ہوئی تھی جس میں جے پال کو شکست ہوئی تھی۔ سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہی پشاور تک چھوٹی چھوٹی مہمات کے ذریعے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجا جے پال اپنی شکست کا بدلہ لینے، ایک بڑا لشکر تیار کرکے غزنی پر حملے کے لیے نکل پڑا۔ 1001ء میں پشاور کے قریب سلطان محمود کی فوجوں نے جے پال کو شکست دی۔
سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ 1004ء میں بھنڈا یا بھیرہ جو دریائے ستلج کے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجا بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہ ملتان کے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006ء میں کیا۔ راستے میں دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی۔ سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا۔ ملتان فتح کرنے کے بعد وہاںکا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان محمود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008ء میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کر دیا۔ اسی دوران میں انند پال نے اردگرد کے راجاؤں کی مدد لے کر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کر دیا۔ 1008ء کے آخری دنوں میں اٹک کے علاقے میں خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔
1009ء کے آخری مہینوں میں سلطان محمود نے پہلے نرائن پور کی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010ء میں ملتان کے گرد و نواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے۔ 1014ء میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہ کوہستان کے علاقے میں شکست دی اور لوجن پال کی مدد کے لیے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015ء میں سلطان محمود نے کشمیر پر حملہ کیا اور لیکن برف باری کے باعث جنگ کیے بغیر ہی واپس آنا پڑا۔ 1018ء میں سلطان محمود نے دریائے جمنا کے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاست قنوج کا محاصرہ کر لیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کر لیا۔ 1019ء میں قنوج کی ملحقہ ریاست کالنجر کے راجا گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجا کو قتل کر دیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجا لوجن پال اور راجا گنڈا جو سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طور پر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019ء میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لیے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ دونوں راجاؤں کو شکست دی اور ہندوستان سے ہندو شاہی راج کا خاتمہ ہو گیا۔
سلطان محمود 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اور دریائے فرات کی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان کو یہ متواتر اطلاعات مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندوستان کی تمام ریاستوں کے ہندوراجائوں نے ایک مشترکہ حملہ کی تیاری کے لیے سومنات کے مشہور مندر کو مرکز بنایا ہے۔ سلطان نے پیشگی حملہ کرکے ان کے عزائم خاک میں ملادیے۔ اس موقع پر ہندئوں کی طرف سے ایک بہت بڑی رقم کی پیش کش کے باوجود شیوا کے بت کو توڑتے ہوئے محمود غزنوی نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا جو امر ہوگیا ’’محمود تاریخ میں بت فروش نہیںبت شکن کے طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے‘‘۔ سلطان کا یہی وہ جرم تھا جس کی بناپر ہندو اور لبرل مورخین انہیں لٹیرا کہتے ہیں۔
فکری دیوالیہ پن کا شکار، اسلامی شناختوں پر حملہ آور، شرم سے عاری خواجہ آصف جیسے لوگ کبھی ہندوستان میں مسلمانوں کے متفقہ ہیرو محمد بن قاسم کو دشمن جبکہ ہندو ظالم بادشاہ راجا داہر کو قومی ہیرو باورکراتے ہیں۔ کبھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کو قومی ہیرو اور جناب شاہ ولی اللہ کی دعوت پر ظالم مرہٹوں سے مسلمانوں کو بچانے والے مسلمان حکمران احمد شاہ ابدالی کو لٹیرا کہتے ہیں۔ اور بت شکن محمود غزنوی کے بارے میں ناپاک کلمات ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی ابتدائی داغ بیل ڈالی۔ مکران کے باسیوں، چترال کے رہائشیوں، میدانی پنجاب کے مکینوں، صحرائے تھر کے رہنے والوں یا وزیرستان کے پشتونوں کو اسلام کے علاوہ کوئی چیز متحد نہیں کر سکتی۔ سیکولر قومی شناخت کے دعویدار درحقیقت اس ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں جو ریاست ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ‘‘ کی بنیاد پر لی گئی تھی، اور اسلام میں ہی جس کی طاقت پنہاں ہے۔