صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، عمر یونہی تمام ہوتی ہے

193

اسامہ تنولی
ایک نیا سال 2025ء ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور سال 2024ء رخصت ہونے کو ہے۔ ایسے میں اقبالؒ یاد آتے ہیں۔ وہ دانائے راز اور عظیم فلسفی شاعر جسے دنیا شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے نام نامی سے جانتی اور پہچانتی ہے، سے جب اپنے وقت کے معروف جریدے ’’آئوٹ لُک‘‘ کے نمائندے نے دوران انٹرویو یہ سوال کیا کہ آپ کا پسندیدہ شعر کون سا ہے؟ تو اقبالؒ نے جواباً اس نمائندے کو منشی امیر اللہ تسلیم کا یہ شعر بلاتوقف سنا ڈالا، جو دراصل ایک طرح سے شاعرانہ اصطلاح میں سہل ممتنع کا عمدہ شاہکار ہے۔

صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے
عمر یونہی، تمام ہوتی ہے

آج اہل وطن اور اہل سندھ کی حیات بھی بعینہٖ اسی طور سے گزر رہی ہے، گاہے اپنے ہاں رائج ازکار رفتہ، بوسیدہ اور فرسودہ نظام حکومت اور طرزِ اقتدار کی ستم رانیوں سے متاثرہ افتادگانِ خاک کی جانب زار کو دیکھ کر بے ساختہ زبانِ زدعام کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر ذہن میں در آتا ہے، جو بظاہر کسی ٹوٹی پھوٹی گاڑی کے دل جلے مسافر یا ڈرائیور کے جذبات کا ترجمان ہے۔

نہ انجن کی خوبی، نہ ڈرائیور کا کمال
چلی جارہی ہے، خدا کے سہارے

عقل اور شعور میں یہ بات کسی طرح سے نہیں سماتی کہ آخر ہم کب تک اسی انداز میں اپنا یہ رائیگاں سفر جاری رکھیں گے؟ آخر ہمارے حالات کب بدلیں گے اور کس طرح سے بدلیں گے؟ وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال 24 کروڑ اہل وطن آخر مسائل اور گرداب کے بھنور سے کب نکلیں گے؟ مقتدرہ کی ملکی سیاست میں ہونے والی مداخلت کا سلسلہ کیسے ختم ہوگا؟ اور اہل سیاست، اہل اقتدار آخر صرف اپنے بجائے اہل ِ وطن کے لیے بھی کب سوچنا شروع کریں گے؟

گستاخی معاف! آج تو مہنگائی، بدامنی، بدعنوانی، بے روزگاری، بدحکومتی اور بدانتظامی کے ہاتھوں ستایا گیا نیم جان ہر فرد غالبؔ کے الفاظ میں یہی کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے۔
زندگی گر اسی طور سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدا رکھتے تھے؟

بلاشبہ! اللہ تعالیٰ موجود ہے اور اس کی جانب سے ہماری ہر ہر حرکت پر ہر لحظہ نظر رہتی ہے۔ ہر صاحب ایمان کو اس امر کا بھی یقین کامل ہے کہ اس کی مرضی اور رضا کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا۔ اس دُنیائے رنگ و بو میں کسی مقصد کے حصول کے لیے خود حضرت انسان کا فعال ہونا بھی ناگزیر اور ازبس ضروری ہے، لیکن ایک بار پھر معذرت کے اہل وطن، بالخصوص اہل سندھ کی اکثریت اس کے یکسر برعکس ہاتھ پر ہاتھ دھرے اقبالؒ کے الفاظ میں محو منت ظرفر داہی رہتی ہے۔ دراصل حکمران طبقے نے اپنی طاقت اور اپنے استحصالی ہتھکنڈوں کی وجہ سے عوام الناس کی اکثریت کو ہر لحاظ سے اتنا زیادہ مرعوب، خوف زدہ اور ذہنی طور پر دبائو کا شکار کر ڈالا ہے کہ وہ اپنے ساتھ عرصہ دراز سے جاری ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں کے خلاف بلند آہنگ میں احتجاج بھی کرنے سے قاصر اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھی کے معروف کالم نگار مصطفی کمال مہیری نے یہ کتنا برمحل اور درست لکھا ہے جس کے مفہوم کے مطابق ’’اہل سندھ بے چارے اپنے کسی منتخب ایم پی اے، ایم این اے کے خلاف ایک احتجاج کریں گے؟ وہ تو اپنے مقامی یوسی ناظم کے خلاف بھی مارے ڈر کے اپنی زبان سے کچھ نہیں بول سکتے، جس کے ماہانہ فنڈز 12 لاکھ روپے کرنے کے باوجود سندھ کی لگ بھگ ہر یونین کونسل موئن جو دڑو کا منظرنامہ پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے (بحوالہ کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدر آباد)۔

سندھ کے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ عوام کے ساتھ ہر دن ہی روا رکھی گئی زیادتیوں اور مظالم کی خبریں سامنے آنے کے باوجود بے حس حکمران طبقے کا خاموش تماشائی بنے رہنا اس بات کا واضح مظہر ہے کہ اہل سندھ اب بالکل لاوارث ہوچکے ہیں۔ زندگی کی بیش تر بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم اہل سندھ کی اکثریت لگتا یہ ہے کہ سال گزشتہ 2024ء کی طرح نئے آنے والے سال 2025ء میں بھی اسی طرح سے برے حالوں میں چارونا چار اپنی زندگی گزارتی رہے گی کہ اسے تڑپنے کی اجازت ہے اور نہ ہی فریاد کی ہے، گھٹ گھٹ کے مرجائوں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے‘‘ کی ایک طرح سے عادت پڑ چکی ہے۔ ایسے مایوس کن اور کٹھن حالات میں جماعت اسلامی کی تنظیم الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں ’’بنو قابل‘‘ کے تحت نوجوان طلبہ اور طالبات کے لیے آئی ٹی میں معیاری تعلیم و تربیت کی فراہمی کے قابل عمل منصوبے لائق صد تحسین ہیں، جو ہزارہا بچے اور بچیوں کو حصول روزگار میں معاون ثابت ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ لاکھوں کے لیے فراہمی روزگار کا باعث بنیں گے۔ کاش! گزشتہ دو عشروں سے اہل ِ سندھ کا خون چوسنے والی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے ذمے داران بھی اس سے کچھ سبق سیکھ سکیں اے کاش!