بلاول زرداری کا ویژن اور سندھ کی محرومیاں

204

مجاہد چنا
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول زرداری نے چند روز قبل سندھ یونیورسٹی جامشورو میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: انٹرنیٹ اب ایک بنیادی انسانی حق ہے، ڈیجیٹل بل آف رائٹس لے کر آئیں گے، اسلام آباد میں بیٹھے بابووں اور سیاستدانوں کو انٹرنیٹ سلو اور وی پی این بند ہونے سے فرق نہیں پڑتا، انٹرنیٹ سلو ہونے اور وی پی این بند ہونے سے ہم نوجوانوں کا جینا حرام ہوجاتا ہے۔ پی پی پی چیئرمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کی دنیا میں انٹرنیٹ بنیادی انسانی حق ہے، تیز اور افورڈیبل انٹرنیٹ تک رسائی کا حق چھین کر لیں گے، ڈیجیٹل رائٹس بل کے لیے نوجوانوں سے مل کر جدو جہد کریں گے۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ، منگل 24 دسمبر 2024)

چیرمین صاحب! عوام کے حقوق کے لیے آپ کی بے چینی اور ویژن قابل قدر ہے مگر انٹر نیٹ کو بنیادی حق اور ڈجیٹل رائٹس بل لانے کے دعویدار بلاول زرداری کو یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی پارٹی سندھ میں گزشتہ 16سال سے برسراقتدار ہے مگر آج کے دور جدید میں بھی سندھ کے عوام پانی، صحت، تعلیم اور امن جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، ویسے تو پورا صوبہ خاص طور بالائی سندھ کے اضلاع کشمور، گھوٹکی شکارپور اور جیکب آباد میں عملی طور پر ڈاکوئوں کا راج ہے، شہریوں کی جان ومال، عزت وآبرو محفوظ نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 50 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 75.5 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ پٹرول، گیس، کوئلے اور زراعت کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود مخلص قیادت کے فقدان کی وجہ سے سندھ کے عوام مہنگائی، بھوک، بدحالی اور غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صرف ایک ضلع تھرپارکر میں رواں سال 450 لوگوں نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کی بتی گل کردی۔ باربار تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود 70 لاکھ سے زائد سندھ کے بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اسکول پانی، ٹوائلٹ، دیواروں سمیت بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، بعض مقامات پر اسکول کی عمارتیں وڈیروں کی اوطاق و گودام بنی ہوئی ہیں۔ صوبہ میں اغوا برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، سندھ میں بدامنی کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک ضلع شکارپور میں رواں سال 115 افراد قتل، 70 لوگ اغوا اور چار ہزار سے زائد واردادیں رپورٹ ہوئیں جو رپورٹ نہ ہوئیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ درجنوں لوگ اس وقت بھی کچے کے ڈاکوئوں کے چنگل میں قید ہیں مگر حکومت سب کچھ ٹھیک کے دعوے کرتے نہیں تھکتی جو کہ ان کی ناکامی اور بے حسی کی انتہا ہے۔ بدامنی کے باعث کشمور ضلع کے عوام دوماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ مجال ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور ان کے منتخب نمائندوں کے کانوں پر جوں تک رینگے۔ سندھ میں جنگل کا قانون اور آج کے جدید دور میں سندھ کے عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم اور عملی طور پر پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ سندھ میں بدامنی کی یہ صورتحال ہے کہ لوگ دن کو محفوظ ہیں اور نہ رات میں، تمام تر وسائل اور ڈاکووں کیخلاف آپریشن کرنے کے دعوئوں کے باوجود عوام غیر محفوظ ہیں۔ اس لیے جناب بلاول انٹرنیٹ کا حق دلانے سے پہلے سندھ میں ڈاکو راج کو ختم کرکے اپنے صوبے کے عوام کو عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دلائیں۔

سندھ کے پانی پر ڈاکا، کارونجھر کی کٹائی اور کچے کے ڈکووں کو پیپلزپارٹی حکومت کی سرپرستی حاصل ہونے کا بھی الزام ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ عوام پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم اور ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تباہ حال سڑکوں کی وجہ سے صرف شہر کراچی میں حادثات کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے رواں سال 9 ہزار ٹریفک حادثات 771 ہلاکتیں ہوئیں، ڈکیتی میں مزاحمت پر 112 افراد جان سے گئے۔ چیئرمن صاحب! ان کے حقوق کون دلائے گا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کب تک سندھ کے عوام کو سبزباغ دکھا کر بے وقوف بناتی رہے گی؟ عملی طور پر وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے اٹھا رہے ہیں۔ اوپر والوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ کے ساتھ مستقبل میں آنے والے بھی ان ہی کے ’’بندے‘‘ ہوں۔ بلاول کی پارٹی بھی یہی کھیل کھیل رہی ہے خود کو حکومت سے باہر قرار دیکر ناکامیوں کا سارا ملبہ میاں شہباز شریف پر جبکہ صدر، چیئرمین سینیٹ دو صوبوں کی گورنری اوروزارت اعلیٰ سمیت حکومت بھی لے رکھی ہے۔ جس طرح امریکا اور یورپ دنیا میں انسانی حقوق کا واویلا کرتے ہیں انسانیت کی تذلیل اور دھجیاں اڑانے میں بھی یہی ممالک پیش پیش ہوتے ہیں دور نہیں جائیں غزہ کی ہی مثال لے لیں۔ بالکل اسی طرح انٹرنیٹ کا حق دلانے کے دعویدار بلاول زرداری کی پارٹی نے سندھ میں سب سے زیادہ لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم کر رکھا ہے مگر ان کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی!!۔