فلسطینیوں کے دکھ کو فراموش نہ کیجیے!

206

نہتے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے عظیم الشان غزہ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے مظالم، امریکی پشت پناہی میں جاری ہیں لیکن عالمی ضمیر اور امت مسلمہ اس قتل عام پر خاموش ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ غزہ میں ہزاروں افراد شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ نیتن یاہو دہشت گرد امریکا کے تعاون سے فلسطین میں کھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ اللہ نے توفیق دی کہ ہم مظلوموں کے ساتھ اور ظالموں کے خلاف ہیں جبکہ لوگ خاموش ہوکر جابروں کا ساتھ دے رہے ہیں، حماس دہشت گرد نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے جہاد کر رہا ہے، حماس ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، پاکستان کے عوام ہمیشہ اہل فلسطین کے ساتھ ر ہے ہیں اور ان مصائب اور پریشانیوں میں بھی 25 کروڑ پاکستانی فلسطینیوں کے ساتھ ہیں حکومت حماس کو تسلیم کرے اور اسلام آباد میں حماس کا دفتر کھولا جائے، فلسطین کے بچوں کو تعلیم دی جائے، سفارتی محاذ پر اسرائیل کو تنہا کرنے کا بیڑہ خود اٹھانا ہو گا۔ اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہو گا، جب تک امریکی غلامی سے چھٹکارا نہیں پائیں گے ملک ترقی نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے نہتے عوام پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری کی وجہ سے آج پوری دنیا کے مسلمان اور انسانیت کا غم محسوس کرنے والے درد مند دل رکھنے والے افراد، مضطرب، پریشان، سراسیمہ اور دل گرفتہ ہیں، ان مظالم پر دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی سراپا احتجاج ہیں، یورپی عوام اور طلبہ لاکھوں کی تعداد پر سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں مگرعالمی برادری، امریکا، اس کے اتحادی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں، غزہ میں آتش و آہن کی جو بارش کی جارہی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، 7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں کم از کم 45,484 افراد شہید اور ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں، پے درپے بمباری کے نتیجے میں 365 اسکوائر کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا انسانوں سے بھرا پْرا شہر غزہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، رپورٹس کے مطابق7 اکتوبر 2023 سے لے کر نومبر 2024 تک اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 85,000 ٹن سے زاید بارود سے بمباری کی ہے، یہ مقدار دوسری عالمی جنگ کے دوران کی جانے والی بمباری میں استعمال ہونے والے بارودی مواد سے زیادہ ہے۔ جولائی 2024 کے اوائل تک، اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ میں انفرا اسٹرکچر کی تباہی سے 40 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے، یعنی غزہ میں فی مربع میٹر زمین پر 115 کلو گرام ملبہ پڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس ملبے کو صاف کرنے میں 15 سال سے زیادہ وقت اور 500 ملین ڈالر لاگت آسکتی ہے۔ ستمبر 2024 تک، اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے تھا کہ غزہ کی تقریباً 21 لاکھ آبادی میں سے نوے فی صد بے گھر ہو چکے ہیں۔ مسلسل بمباری کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، موسم کی سختی اس پر مستزاد ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے کے نتیجے میں غزہ کا کمال عدوان اسپتال بھی بند ہو گیا جو زخمی افراد کے علاج معالجے کا واحد ٹھکانہ تھا، حملے کے بعد اسپتال کے سرجری ڈپارٹمنٹ، لیبارٹری، گودام اور ایمبولنس یونٹس کو بھی آگ لگا دی۔ اسرائیلی حملے میں ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کے 5 افراد کو بھی شہید کیا گیا جب کہ عدوان اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ایسی صورتحال میں کہ جب نہتے فلسطینیوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے، عالمی برادری اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، المیہ یہ ہے عراق اور افغانستان پر اپنی مطلب براری کے لیے تو سلامتی کونسل تک کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، ان ممالک کی آزادی اور خودمختاری کو آن کی آن میں زمین بوس کردیا جاتا ہے مگر 25 مارچ 2024 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کو تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ اور غزہ میں جاری انسانیت سوز بمباری کے خلاف عالمی عدالت ِ انصاف میں جنوبی افریقا کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدمے کے فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں کرایا گیا، جس میں عالمی عدالت ِ انصاف نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے فوری جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا تھا، مگر نہ اسرائیل نے جنگ بندی کے مطالبے کو لائق ِ اعتنا جانا نہ ہی بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک ہی اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سرگرمِ عمل ہوئے، اسرائیلی درندگی پر مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور عالمی طاقتوں کی سرد مہری بلکہ درپردہ اسرائیل کی حمایت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج فلسطین قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے، مسلسل بمباری کے نتیجے میں معمولاتِ زندگی درہم برہم ہوگئے ہیں، یکے بعد دیگر اسپتالوں کے انہدام اور ان پر بمباری کے نتیجے میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے، علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی منقطع ہو کر رہ گئی ہے، زخمی افراد بنیادی طبی امداد سے محروم ہیں، بے گھر ہونے والے افراد پناہ گزین کیمپوں یں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایندھن، پانی اور غذائی اجناس کی سپلائی عملاً بند ہوچکی ہے، معاشی سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے، نقل و حمل اور مواصلات کے ذرائع معدوم کردیے گئے ہیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بمباری کے نتیجے میں زمین بوس ہوچکی ہیں جس کے نتیجے میں تعلیمی و تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اس تناظر میں میں جماعت اسلامی کا غزہ ملین مارچ اور حافظ نعیم الرحمن کا خطاب عوامی احساسات و جذبات کا ترجمان ہے۔ بلاشبہ آج اکیس لاکھ انسانوں پر مشتمل غزہ شہر آج عملاً دنیا کا سب سے بڑا انسانی جیل بن چکا ہے، جو مسلم حکمرانوں کی بے ضمیر اور عالمی اداروں کی مسلم دشمنی پر نوحہ کناں ہے، اسرائیل کی اس کھلی دہشت گردی پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ان کی مجرم ضمیری کی علامت ہے، امریکا اور مغربی ممالک نے ایک بار پھر اپنے دوہرے معیار اور کھلی مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بلاشبہ ہمیں کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دینا ہوگا اور دنیا کو یہ باورکرانا ہوگا کہ اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے دہشت گرد نہیں، مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں یہ امت ِ مسلمہ کا مسئلہ اور ہمارے دین و ایمان کا حصہ ہے، نہتے فلسطینی امت ِ مسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کر رہیں، سفارتی محاذ پر اسرائیل کو تنہا کرنے کے لیے عملی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے، فلسطینیوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنا ہوگا، ہر سطح اور ہر محاذ پر فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب فلسطینیوں کی جدوجہد رنگ لائے اور خون صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہو۔